ملازمین کی پنشن اور بیوائوں کو ادائیگی نہ کرنے پر بڑی توجہ دی جا رہی ہے، پی ٹی سی ایل کا نجکاری کے 800 ملین ڈالر کی طرف دھیان نہیں،چیئرمین کمیٹی

جمعرات 8 دسمبر 2016 19:47

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 08 دسمبر2016ء) سینٹ قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے چیئرمین سینیٹرشاہی سید نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل نہ کرنے کی کمیٹی سفارشات کے باوجود پی ٹی سی ایل کی جانب سے اپیل کرنے کو پنشنرز اور بیوائوں کے ساتھ ناروا سلوک قرار دیتے ہوئے انسانی حقوق کا مسئلہ قرار دیدیا۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ ادارے کو دینے والے ملازمین کی پنشن اور بیوائوں کو ادائیگی نہ کرنے پر پر بڑی توجہ دی جا رہی ہے لیکن پی ٹی سی ایل کا نجکاری کے 800 ملین ڈالر کی طرف دھیان نہیںدیا جا رہا ہے انہوں نے کہاکہ کمیٹی جو بھی سفارشات اور تجاویز بھجواتی ہے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی ہے وزارت اور وزارت کے اداروں کو سپریم کورٹ پر بھی اعتبار نہیں ہے سپریم کورٹ نے واضح حکم دیا لیکن اپیل کر دی گئی کیا 35سال ملازمت کرنیوالے کی پنشن ان کی قبروں پر ادا کی جائیگی،کمیٹی نے این آئی ٹی بی میں اربوں روپے کی کرپشن اور بے ضابطگیوں کی تحقیقات کرنے والی ایجنسی ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کو تبدیل نہ کرنے اور رپورٹ جلد از جلد کمیٹی میں پیش کرنے کی ہدایت کی ہے ۔

(جاری ہے)

سینیٹ قائمہ کمیٹی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے چیئرمین سینیٹرشاہی سیدکی صدارت میں منعقد ہونے والے اجلاس میں پی ٹی سی ایل کے پنشنرز کوادائیگی بارے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد،ٹیلی فون انڈسٹری کے سکولوں اور کالجوں میں کنٹریکٹ ملازمین کی مستقلی اور این آئی ٹی بی کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں سے تیرہ مختلف منصوبوں میںبے قاعدگیوں پر ایف آئی اے کی تفتیش کا ایجنڈا زیر بحث آیا۔

کمیٹی چیئرمین سینیٹرشاہی سید نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل نہ کرنے کی کمیٹی سفارش کے باوجود اپیل کرنے کو پنشنرز اور بیوائوں کے ساتھ ناروا سلوک قرار دیتے ہوئے انسانی حقوق کا مسئلہ قرار دیا۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اپنی زندگی کا ذیادہ تر حصہ ادارے کو دینے والے ملازمین کی پنشن اور بیوائوں کو ادائیگی نہ کرنے پر پر بڑی توجہ دی جا رہی ہے لیکن پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے 800 ملین ڈالر کی طرف دھیان نہیںدیا جا رہا ہے انہوں نے کہاکہ کمیٹی جو بھی سفارشات اور تجاویز بھجواتی ہے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی ہے وزارت اور وزارت کے ادروں کو سپریم کورٹ پر بھی اعتبار نہیں ہے سپریم کورٹ نے واضح حکم دیا لیکن اپیل کر دی گئی کیا 35سال ملازمت کرنیو الے کی پنشن ان کی قبروں پر ادا کی جائیگی۔

چیئرمین سینیٹرشاہی سید نے کہا کہ پچھلے سال پی ٹی سی ایل کو تقریاب آٹھ ارب کی سالانہ بچت ہوئی ہے انہوں نے کہاکہ ہوشیاری اچھی بات نہیں ہے پنشنرز کا معاملہ انسانی بنیادوں پر دیکھنے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ کا فیصلہ غلط تھا جس پر اپیل میں گئے ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے سوال اٹھایا کہ اضافی پنشن کی رقم کتنی ہو گی جس پر سیکرٹری وزارت نے بتایا ک 20ارب سے 40ارب روپے کے درمیان رقم بنتی ہے۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اتصلات کے 800ملین ڈالر سے تو یہ رقم زیادہ نہیں ہے انہوں نے ٹیلی فون انڈسٹری کے کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل نہ کرنے کو بھی انسانی بنیادوں پر مستقل کرنے کی سفارش کی اورنے کہا کہ تعلیم دینیو الے اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے بارے میںانسانی ہمدردی کو بھی سامنے رکھا جانا چاہئے انہوں نے ایم ڈی ٹی آئی پی سے کہا کہ این ٹی آر سی نے ملازمین کو تنخواہیں ادا کر دی ہیں اور باقی رہ جانے والے کنٹریکٹ ملازمین کو بھی مستقل کر کے تنخواہیں ادا کی جائیںانہوںنے کہا کہ ٹی آئی پی کی 1953میں بننے والی عمارت اور زمینوں کے حصول کیلئے تو لڑائیاں ہورہی ہیں مگر ہسپتال اور سکول کے ملازمین کو ریگولر کیوں نہیں کیا جا رہا ہے انہوں نے کہاکہ اتصالات کے ذمے 800ملین ڈالر کی کسی کو کوئی فکر نہیں ہے 35000ماہانہ تنخواہ لینے والے اساتذہ کی طرف بھی دھیان نہیںدیا جا رہا ہے جو کہ بے حسی کی حد ہے ا ور نالائقی بھی ہے انہوں نے کہاکہ سرکاری اداروں کو ٹھیکیداری نظام کے تحت چلایا جا رہا ہے قانون کے تحت تین سال بعد کنڑیکٹ ملازمین کو مستقل کرنا چاہئے تھا۔

کمیٹی نے ایم ڈی ٹی آئی پی کی بریفنگ پر عدم اطمنیان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کی سفارش جانی چاہئے کہ وزارت کے سٹاف کی چھ ماہ کی تنخواہیں بند کر دی جائیںتو معاملہ حل ہو سکتا ہے چیئرمین سینیٹرشاہی سید نے ہدایت دی کہ اگلے اجلاس میں کنٹریکٹ ملازمین کے مسئلے کے حل کی قابل عمل تجاویز لائی جائیں جس پر کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ پی ٹی سی ایل میںحکومت کو حصہ62فیصداور عوام کا 12فیصد ہے سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ نجکاری کے عمل میںبد عنوانی کی گئی ہے نجکاری کرتے وقت ملازمین کا خیال نہیں رکھا گیاتھاانہوںنے کہا کہ ملازمین کے حقوق کا تحفظ نہیںکیا گیا اور اس کی ذمہ داری کسی پر بھی نہیں دالی گئی سیاسی حکومتوں کے فیصلوں میں ماہرین حکومت کو درست رائے نہیں دیتے اور سوال اٹھایا کہ کیا وزارت کے کسی آفیسر نے پی ٹی سی ایل کی نجکاری میں اختلافی نوٹ بھی لکھا تھا اس موقع پر سیکرٹری اطلاعات نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ معاملہ عدالت میں ہے سپریم کورٹ سے جو بھی فیصلہ آئیگا من و عن عمل کرینگے پنشن کا اضافہ اتصلات نے دینا ہے جبکہ 70 فیصد ہم ادا کرینگے اس موقع پر ڈائریکٹ ایف آئی اے نے آگاہ کیا کہ این آئی ٹی بی کے تیرہ مختلف منصوبوں کی تحقیق کے دوران شروع میں کیس چھوٹا لگامگر جوں جوں آگے بڑھتے گئے تو پتہ چلا کہ یہ میگا کرپشن کا کیس ہے جس کیلئے تیرہ الگ الگ انکوائی افسر مقرر کر دیئے گئے ہیں انہوں نے کہاکہ بے حسی اور بے احتیاطی بہت زیادہ نظر آئی ہے انہوں نے کہاکہ ادارے کا سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر اپنی تیاری اور استعمال کی عمر مکمل کر چکے ہیں75فیصد ادائیگیاں کر دی گئیںاسی طرح سی ڈی اے کے آئی ٹی شعبہ کیلئے سافٹ ویئر ہارڈ ویئر کے بارے میں نیس پاک کو کنسلٹنٹ رکھا گیا اور نہیں دیکھا گیا کہ نیس پاک کی اس شعبے میں استعداد کیا ہی15دسمبر کو فرانزک رپورٹ آئیگی جس کے بعد دوسر ے بارہ منصوبوں میں بد عنوانی کی تحقیقات مکمل کر کے کمیٹی کو پیش کرینگے کمیٹی کے رکن سینیٹر اعظم سواتی نے تجویز کیا کہ ایف آئی اے کے تفتیشی افسر مظہر الحق کاکا خیل کی تحقیقات مکمل ہونے سے قبل کہیں اور ٹرانسفر نہ کی جائے جس پر چیئرمین سینیٹرشاہی سید نے کمیٹی کی طرف سے سفارش کی کہ مظہرالحق کاکا خیل کی تحقیقات مکمل ہونے تک ٹرانسفرنہ کی جائے کمیٹی کی رکن سینیٹر روبینہ خالد نے نیس پاک کی صلاحیت اور استعدا د کے بارے میں سوال اٹھایا جس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے نے کہا کہ نیس پاک کا کردار سوالیہ نشان ہے چیئرمین سینیٹرشاہی سید کے سوال کے جواب میں آگاہ کیا گیا کہ تیرہ منصبوں کی کل مالیت1 ارب 50کروڑ ہے جوائنٹ سیکرٹری وزارت نائلہ ظفر نے کہا کہ نیس پاک کی بجائے سی ڈی اے کو پوچھنا چاہئے کہ سی ڈی اے نے نیس پاک کو کنسلٹنٹ کیوں رکھا چیئرمین سینیٹرشاہی سیدنے کہا کہ قائمہ کمیٹیوں میں نیس پاک کا کردار زیر بحث آتا ہے کیا نیس پاک کی انفارمیشن شعبہ میں صلاحیت ہے ایم ڈی ٹی آئی پی نے آگاہ کیا کہ 108کنٹریکٹ ملازمین کالونی بورڈ کے ہیں ٹی آئی پی اور بورڈ کے ملازمین الگ الگ ہیں102کنٹریکٹ ملازمین کا ملازمت معاہدہ 30جون کو ختم ہو چکا ہے این آئی آر سی نے کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کر دیا کچھ ملازمین عدالت گئے ہیں سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ 2013 میں یہ ملازم کیوں مستقل نہیں کئے گئے ایم ڈی ٹی آئی پی نے کہا کہ وہ جنرل آرڈر تھا پچھلے دس سال سے حکومتی گرانٹ پر ادارہ چل رہا ہے مزید ملازمین لئے جائیں تو مالی بوجھ ہو گا سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کرنے کا حکم نامہ سب کیلئے تھا ایم ڈی ٹی آئی پی نے کہا کہ ٹی آئی پی سرکاری ادارہ نہیں بلکہ کمپنی ہے اجلاس کے دوران خواتین اساتذہ نے آگاہ کیا کہ 31سال کی ملازمت ختم کر دی گئی ہے اب مستقل ملازمت ختم کر کے کنٹریکٹ پر بھرتی کیلئے کہا جا رہا ہے انہوں نے کہاکہ ادارے نے 31سال کی ملازمت پر سرخ لکیر لگادی ہے گذشتہ چھ ماہ سے تنخواہ نہیں ملی انہوں نے کہاکہ ریڑھ کی ہڈی اور شوگر کی مریض ہوںمیرے سمیت دوسرے ملازمین کا علاج بھی بند کر دیا ہے جس پر چیئرمین سینیٹرشاہی سید نے سخت برہمی کا ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بے حسی کی انتہا ہے ادارے کو ٹھیکیداری نظام پر چلایا جا رہا ہے انہوں نے کہاکہ ان ادارں میں پھر بھی تعلیم کی ضرورت رہیگی اوربجائے نئی بھرتی کے ان ا ساتذة کو ہی مستقل کیا جانا چاہئے انہوں نے کہاکہ طلباء اور اساتذہ کی ہم ذمہ د اری لیتے ہیں بچوں کی تعلیم اور عملہ کی ملازمت متاثر نہیں ہونی چاہئے جس پر ایم ڈی نے آگاہ کیا کہ نوٹس پیریڈ کے علاوہ دو ماہ کی ایڈوانس تنخواہ کا پیکج دے رہے ہیں دس ملازمین نے سہولت لے لی ہے۔

اجلاس میں سینیٹرز تاج محمد آفریدی،مفتی عبدالستار،گیان چند،سید شبلی فراز،روبینہ خالد،نسیمہ احسان،محمد اعظم خان سواتی،سیکرٹری وزارت ،ایم ڈی ٹی آئی پی،ڈائریکٹر ایف آئی اے اور اعلی حکام نے شرکت کی

متعلقہ عنوان :