Live Updates

پانامہ لیکس کیس، وکلاء اپنے کلائنٹس سے ہدایات لے کرآگاہ کریں کہ پانامہ کیس کی تحقیقات کیلئے کمیشن بنایاجائے یا عدالت کو اس کیس کافیصلہ کرناچاہیے، تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے عدالت میں انٹرنیٹ سے ڈائون کی گئی دستاویزات عدالت میں پیش کیں، ایسی دستاویزات مستند شواہد نہیں ہوتیں ،نامکمل شواہد جمع کرائے گئے،سپریم کورٹ

بدھ 7 دسمبر 2016 23:39

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 07 دسمبر2016ء) سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس کے حوالے سے مقدمہ کی سماعت کل جمعہ کی صبح تک ملتوی کرتے ہوئے فریقین کے وکلاء کوہدایت کی ہے کہ وکلاء اپنے کلائنٹس سے ہدایات لے کرعدالت کوآگاہ کریں کہ پانامہ کیس کی تحقیقات کیلئے کمیشن بنایاجائے یا عدالت کو اس کیس کافیصلہ کرناچاہیے،عدالت میں نامکمل شواہد جمع کرائے گئے ہیں تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے عدالت میں انٹرنیٹ سے ڈائون کی گئی دستاویزات عدالت میں پیش کیں، ایسی دستاویزات مستند شواہد نہیں ہوتیں ،بدھ کوچیف جسٹس انورظہیرجمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجربنچ نے کیس کی سماعت کی،اس موقع پر وزیراعظم محمد نواز شریف کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے عدالت میں پیش ہوکردوسرے روزبھی ا پنے دلائل جاری رکھے۔

(جاری ہے)

جسٹس شیخ عظمت سعید نے ان سے استفسارکیا کہ عدالت کوبتایاجائے کہ وزیراعظم نے کب مریم نواز شریف کیلئے اراضی خریدی اور مریم نواز شریف نے اس ا راضی کی قیمت کب والد کو ادا کی ہے ۔ والد نے بطور تحفہ اپنی بیٹی کو رقم دی جو اُس نے اراضی کی خریداری کے ضمن میںاپنے والد کو واپس کردی، عدالت کے استفسارپر فاضل وکیل نے بتایا کہ مریم نواز جاتی عمرہ میں رہائش پذیر ہیں جہاں خاندان کے دیگر افراد بھی رہتے ہیں۔

تحریک انصاف نے بقایا جات اور اثاثہ جات کو آپس میں گڈ مڈ کر دیا ہے۔سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ اگر وزیراعظم نے بیٹی کو اپنے گھر میں رہنے کی اجازت دی ہے تو کیا اس کا یہ مطلب ہوا کہ وہ ان کی زیرکفالت بن گئی۔ سب جانتے ہیں کہ ہر باپ بیٹیوں کو تحفے دیتا رہتا ہے۔انہوں نے کہا کہ حسین نواز آف شور کمپنی کے مالک جبکہ مریم نواز اس کی ٹرسٹی ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے قرار دیا کہ شواہد اور آگاہی کو ریکارڈ کرنا عدالت کا کام نہیں، اس حوالے سے دستاویزات کا جائزہ لینے کے لئے ایک انکوائری کمیشن بنایا جائے گا۔

جس کے لئے آپشنز موجود ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ تحریک انصاف کے دلائل کے مطابق کسی کمپنی کی ٹرسٹی کو باقاعدگی کے ساتھ ٹیکس ادا کرنا چاہیے، جس پر وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ ہم نے آف شور کمپنیوں کے حوالے سے کوئی ٹیکس جمع نہیں کرایا،ٹرسٹی ہونے سے متعلق معاہدے کی رجسٹریشن کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی، یہ زبانی بھی تو ہو سکتا ہے جس کی برطانوی قوانین اجازت دیتے ہیں۔

سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ میرے دفتر میں ہزاروں فائلیں موجود ہیں اور پانامہ دستاویزات کی کوئی قانونی یا مستند حیثیت نہیں ۔ تحریک انصاف کہتی ہے کہ دبئی ملز پر 36ملین درہم کے بقایا جات واجب الادا تھے جب کہ ان کے وکیل نعیم بخاری کے مطابق دو ملین بجلی بل کے بقایا جات واجب الادا تھے جو قسطوں میں ادا کر دیئے گئے۔جسٹس عظمت نے سوال کیا کہ بقایا جات کس نے ادا کئے تو بٹ نے جواب دیا کہ یہ تمام اقساط طارق شفیع نے ادا کیں، عدالت نے کہا کہ اگر دبئی مل خسارے میں چلنے کے باعث فروخت کی گئی تو کس طرح بقایا جات ادا کیے گئے۔

سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ اس حوالے سے 40سالہ ریکارڈ کون دیکھ سکتا ہے کیونکہ دبئی بینک 5سال سے زائد ریکارڈ نہیں رکھتا، ہماری کمپنیوں کا ریکارڈ 99ء میں مارشل لاء لگنے کے بعد قبضے میں لے لیا گیا۔سماعت کے دوران جسٹس امیر ہانی نے کہا کہ پانامہ کیس کے حوالے سے عدالت میں دلائل کم لیکن ذرائع ابلاغ میں زیادہ نظرآئے،عدالت کے سامنے جو دستاویزات پیش کی گئی ہیں ان کی بنیاد پر ہی فیصلہ کیاجائے گا۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات