خطے میں امن کے فروغ کے لیے ماضی کی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لینا ہو گا

تنازعات کی وجہ سے جنوبی ایشیاکے عوام تعاون کے ثمرات سے محروم ہیں، ایس ڈی پی آئی کی سالانہ کانفرنس کے دوسرے روز سینیٹر افراسیاب خٹک ،، ڈاکٹرپرویز طاہر اور دیگر مقررین کا اظہار خیال

بدھ 7 دسمبر 2016 23:02

6اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 07 دسمبر2016ء) پاکستان ایک سیکورٹی سٹیٹ ہے مگر خطے میں امن کے فروغ کے لیے پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لینا ناگزیر ہو چکا ہے۔ غیر حقیقی پالیسی کی بدولت ملک انتہا پسندی کا شکا ہے۔ قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت کا تصور ادھورا ہے۔ عوام کی فلاح و بہبود ریاستی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ ان خیالات کا اظہار عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما سابق سینیٹرافراسیاب خٹک نے پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی ) کی19 ویںسالانہ کانفرنس کے دوسرے روز کیا۔

کانفرنس کے دوسرے روز موسمیاتی تبدیلیوں، قدرتی آفات کے خطرات کے مقابلے، جنوبی اشیا میں امن و سلامتی، برابری پر مبنی شہریت اور شہری حقوق، جنگ اور آفت زدہ علاقوں میں غذائی تحفظ کی صورت حال کے علاوہ صحت، توانائی، معیشت اور خدمات کے موضوعات پر گفتگو کی الگ الگ نشستوں کے دوران مختلف ترقیاتی شعبوں کے ماہرین نے اظہار خیال کیا۔

(جاری ہے)

جنوبی ایشیا میںتنازعات اور خدمات کی فراہمی میں رکاوٹیںکے موضوع پر منعقدہ نشست سے خطاب کرتے ہوئے سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے مزید کہا کہ وہ قبل از بجٹ مشاورتی عمل کا بھی حصہ ہیں اور اس بنیاد پر دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ سماجی شعبے کے لیے کو،ْی قابل ذکر کام نہیں کیا جا رہا ہے۔

نشست کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے ایس ڈی پی آئی کے ڈاکٹر شہر یار طورونیانسانی ترقی کی خراب صورت حال کے مختلف پہلوؤں کو اجا گر کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کی جانب سے شہریوں کو تعلیم ، صحت اور دوسرے شعبوں میں خدمات کی بہتر فراہمی کی ضرورت ہے۔نشست کے دوران شیرین گل، عدنان شیر اور سعادت علی بھی اظہار خیال کیا۔جنوبی ایشیا اور افریقہ کے نیم بارانی علاقوں میں روزگار کی صورت حال سے متعلق نشست سے خطاب کرتے ہوئے ماہرین نے کہا کہ دیہی علاقوں میں غذائی عدم تحفظ اندرونی ہجرت کی بڑی وجہ ہے۔

کاشف سالک، زہانہ، حسن رضوی اور ڈاکٹر عالیہ ایچ خان نے موضوع کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے کئی ممالک کو اس وقت اندرونی ہجرت کے بحران کا سامنا ہے جس کی بنیادی وجہ مخصوص علاقوں میں وسائل کا میسر نہ ہونا ہے۔ جنگ زدہ علاقوں میں محفوظ روزگار سے متعلق ایک اور نشست سے خطاب کرتے ہوئے سیکیور لائیولی ہڈ ریسرچ کنسورشیم (ایس ایل آر سی) کے پال ہاروے نے کہا کہ لوگ کئی وجوہات کی بنیاد پر جنگ زدہ علاقوں کو چھوڑنے سے گریز کرتے ہیں جن میں ان کے ثقافتی معمولات بھی شامل ہیں۔

سینئر صحافی اعجاز حیدر نے افغانستان کی موجودہ صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں کابل کو چھوڑ کر باقی علاقوں کی اکثریت پسماندہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں فیصلہ سازی کرتے وقت پسماندہ علاقوں کی عوام کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔’سارک کا مستقبل، موجودہ رکاوٹیں اور امن ، ترقی اور خوش حالی کے امکانات‘ کے موضوع پر منعقدہ نشست سے خطاب کرتے ہوئے سابق چیف اکانومسٹ آف پاکستان ، ڈاکٹرپرویز طاہر نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کا حجم بہت کم ہے جبکہ موجودہ حجم میں بھی پاکستان کی بھارت کو برآمدات، درآمدات کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت نے ایک دوسرے کو پسندیدہ ملک کا درجہ دے رکھا ہے مگر تنازعات اور باہمی عدم اعتماد کی وجہ سے اس کا بھر پور فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ ایس پی او کے نصیر میمن نے کہا کہ خطے کے ممالک کو دفاع کی بجائے تعلیم پر خرچ کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ جنوب جنوب تجارت کے معروف داعی ماجد عزیز نے کہا کہ ہم اپنے نجی شعبے کو باہمی تجارت کے فروغ میں مؤثر کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں دے رہے۔

ماروی سرمد نے اس موقع پر سارک کے میثاق کا تفصیلی تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت سلامتی سے متعلق امور میں پھنسے ہونے کی وجہ سے اقتصادی مسائل کے حل پر توجہ مبذول نہیں کر رہے۔نشست کے دوران تحسین احمد اور کرامت علی نے اظہار خیال کیا اور کہا کہ سارک سربراہ کانفرنس کا ملتوی کیا جانا تنظیم کے مقاصد کے لیے ایک بڑا نقصان تھا۔

جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا کے اقتسادی ادغام کے موضوع پر نشست کے دوران مقررین نے تعاون کے فروغ میں حائل معاشی و سیاسی رکاوٹوں کو اجا گر کیا۔افغانستان کے سفیر عمر ذخیل خال نے کہا کہ خطے میں تجارت کو سیاسی معاملات سے الگ رکھتے ہوئے فروغ دیا جائے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کے گنتر سگیا یاترو نے کہا کہ سی پیک پاکستان کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہ تاہم اس سے مستفید ہونے کے لیے دوسرے درپیش مسائل کا حل کیا جانا ضروری ہے۔

ماجد عزیز، ہارون شریف اورفوزیہ نسرین نے کہا کہ خطے میں تعاون کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ ان رکاوٹوں کو دور کیا جائے ۔قبل ازیں ’پاکستان میں سولر جیو انجینئرنگ ‘ کے موضوع پر نشست کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے پشاور یونیورسٹی کے ڈاکٹر قاسم جان نے کہا کہ کہا کہ فضا میں زہریلی گیسوں کا اخراج عالمی درجہ حرارت میں اضافے ، بارشوں کے نظام میں بگاڑ، گلیشئرکے پگھلاؤ، مٹلف جانداروں کی نسلیں معدوم ہونے اور دوسرے تباہ کن اثرات کا باعث بن رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ترقی پزیر ممالک ان اثرات کا مقابلہ کرنے کی کم اہلیت کی وجہ سے زیادہ بڑے نقصانات سے دوچار ہیں۔ ایس ڈی پی آئی کے ڈاکٹر فہد سعید نے کراچی میں پانی اور بجلی کے حوالے سے مسائل کو اجاگر کیا۔ایس آر ایم گورننس انی شیٹو کے ڈاکٹر آندے پارکر نے کہا کہ فضا میں زہریلی گیسوں کا مزید اخراج رک بھی جائے تو اب تک ہونے والے اخراج کے تباہ کن اثرات جاری رہیں گے۔

منڈی، ویلیو چین اور سماجی نیٹ ورکس کے موضوع پر نشست کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ سوات میں پھلوں اور سبزیوں کی قیمتوں کے تعین کے حوالے سے ضوابط وضع ہونے چاہئیں اور مڈل میں کے کردار کو ادارہ جاتی شکل دینا ضروری ہے۔انہوں نے کہا سبزیوں اور پھلوں کے کاروبار میں عورت کے کردار کا اعتراف نہیں کیا جاتا۔

اوورسیز ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ کے رچرڈ میلیٹ نے نشست کی صدارت کرتے ہوئے منڈیوں اور ویلیو چین کے ضمن میں وسیع استعداد پر روشنی ڈالی۔ ای ایل آر سی کی ڈاکٹر جیولیا منویا ، ارینا موسل اور ڈاکٹر فوقیہ صادق نے بھی اظہار خیال کیا اور موضوع کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی۔ ’چین ۔پاکستان اقتصادی گزرگاہ بطور توانائی اور شفاف بنیادی ڈھانچے کے لیے علاقائی تعاون کی بنیاد ‘ کے موضوع پر منعقد ہونے والی نشست سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے پورٹ اینڈ شپنگ میر حاصل خان بزنجو نے کہا کہ سی پیک کی آفیشل ویب سائٹ کا افتتاح ہو جانے کے بعد اس حوالے سے تنازعات میں کمی آئے گی کیونکہ ویب سائٹ پر تمام اہم اعدادوشمار دستیاب ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اقتصادی گزرگاہ کے حوالے سے اچھی توقعات رکھنی چاہئیں اور تنازعات کھڑے کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ نشست سے اظہار خیال کرتے ہوئے چین سے تعلق رکھنے والے مندوب وینگ نان نے کہا کہ ہمیں دیر پا بنیادوں پر سی پیک کو محفوظ بنانے کے لیے افغانستان کو مستحکم بنانا ہو گا۔ ڈاکٹر صفدر سہیل، ڈاکٹر مفتاح اسمعیل، ڈاکٹر عابد سلہری ، ڈاکٹر فرین سن اور شکیل رامے نے اظہار خیال کرتے ہوئے علاقائی تنازعات اور عدم مساوات کو کم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں بنیادی ڈھانچے اور صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری کے ذریعے انسانی زندگیوں میں بہتری لانے پر توجہ دینی ہو گی۔ آبادی کے صنفی پہلو اور جمہوریت کے موضوع پر منعقدہ نشست سے خطاب کرتے ہوئے فرانس سے آئی مندوب ڈاکر نتھا لین رینالڈزنے کہا کہ پاکستان اور بھارت میں پالیسی سازی کی سطح پر عورتوں کے کردار کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جو انتہائی بد قسمتی ہے۔

قومی کمیشن برائے مقام نسواں (این سی ایس ڈبلیو) کی چئیرپرسن خاور ممتاز کا کہنا تھا کہ ہمیں صنفی برابری، یکساں سرمایہ کاری اور مختلف شعبوں میں عورتوں کے کردار کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ نشست سے ڈاکٹر بتول زیدی، فائزہ ، ڈاکٹر لقمان اور ڈاکٹر گلناز انجم نے بھی اظہار خیال کیا اور صنفی تفاوت کے حوالے سے مختلف پہلوؤں پر تفصیلی ورشنی دالی۔

صنفی کردار اور تعلیم نسواں کے موضوع پر ایک دوسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے سری لنکن مندوب ڈاکٹر گنا سکیرا کہا کہ نچلے طبقات کی غریب عورتوں کو صنفی بنیادوں پر تشدد کا زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے۔نشست کے دوران ڈاکٹر عائشہ خورشید، لی پلونگو اور حارث خلیق نے بھی اظہار خیال کیا اور کہا کہ تعلیم نسواں کا فروغ عورتوں کی با اختیاری کی جانب پہلا قدم ثابت ہو سکتی ہے۔