دہشتگردی کے خلاف جنگ ہماری نہیں امریکہ کی ہے، پاکستان کو قومیت اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں ، موجودہ پاکستان جناح کا نہیں یحییٰ کا ، 47 کا نہیں 71 کا اوردو قومی نظریہ والا نہیں ون یونٹ والا پاکستان ہے ،،ہمیں قوم کو روایتی باتوں سے نکال کر حقیقی باتوں بارے تعلیم دینا چاہیے

چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا محمد خان شیرانی کا اسلامی ادارے اور انکے کردار کے حوالے سے منعقدہ سیمینار سے خطاب نظام کے ساتھ چلنے کیلئے ہمیں روایت اور جدت میں توازن پیدا کرنا ہو گا ، بیرسڑ ظفراللہ

بدھ 7 دسمبر 2016 22:24

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 07 دسمبر2016ء) چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا محمد خان شیرانی نے کہا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ ہماری نہیں امریکہ کی ہے، پاکستان کو قومیت اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں ، موجودہ پاکستان جناح کا پاکستان نہیں یحییٰ کا پاکستان ہے،یہ پاکستان 47 کا پاکستان نہیں 71 کا پاکستان ہے،یہ دو قومی نظریہ والا پاکستان نہیں ون یونٹ والا پاکستان ہے ،،ہمیں قوم کو روایتی باتوں سے نکال کر حقیقی باتوں بارے تعلیم دینا چاہیے،وزیر اعظم کے معاون خصوصی بیرسڑ ظفراللہ نے کہا کہ ہمیں روایت اور جدت میں توازن پیدا کرنا ہو گا تاکہ نظام کے ساتھ چل سکیں ۔

بدھ کو دونوں راہنمااسلامی نظریاتی کونسل کے زیر اہتمام اسلامی ادارے اور انکے کردار کے حوالے سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کر رہے تھے ۔

(جاری ہے)

صدارت خطبہ میں چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا محمد خان شیرانی نے کہا کہ دنیا مین دو طبقات خدا پرست اور ہوا ہرست بستے ہیں۔ ا دنیا میں دہشتگردی اور مذہبی فرقہ واریت کا غلغلہ ہے افسوس یہ مذہب کا نہیں سیاست کا تقاضہ ہے، دہشتگردی کے خلاف جنگ ہماری نہیں امریکہ کی ہے ۔

پاکستان کو قومیت اور لاثانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی شازشیں کی جارہی ہیں،انہوں نے کہا کہبطور انسانیت تمام لوگ ایک ہیں البتہ کچھ اختلافات ہیں،معاشرے میں کچھ مذہبی, فکری اور معاشی اختلافات موجود ہیں لیکن کچھ چیزوں پر اتفاق بھی ہے،مذہب انسان کا بنیادی حق ہی, البتہ اس کی وضاحت پہ اختلاف ہے،معاشی میدان بھی کچھ مشترکات اور اختلافات ہیں،محنت, اجرت اور آجر کی بچت پہ معاشی میدان میں اتحاد اور سرمایہ کے منافع پر اختلاف ہے،قانون سازی کے میدان میں بھی تین اختلافات ہیں،آج کی دنیا 19 ویں صدی کی دنیا نہیں ہے آج دنیا شہروں کی دنیا نہیں بلکہ دنیا اب شہر ہے۔

اب دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہی, اب شہر کا چودھری ایک ہی ہوگا،موجودہ صورتحال میں ایک جنرل اسمبلی اور دوسری سیکیورٹی کونسل ہے،اب ہمیں اپنے حوالے سے سوچنا ہوگا ہم مالکین میں ہیں یا خادمین میں ہیں،موجودہ پاکستان جناح کا پاکستان نہیں یحییٰ کا پاکستان ہے،یہ پاکستان 47 کا پاکستان نہیں 71 کا پاکستان ہے،یہ دو قومی نظریہ والا پاکستان نہیں ون یونٹ والا بچا پاکستان ہی,،ہمیں قوم کو روایتی باتوں سے نکال کر حقیقی باتوں بارے تعلیم دینا چاہیے،خدا پرست ملت واحدہ ہی, ہوا پرست دوسری ملت ہے،دہشت گردی, مذہبی فرقہ واریت کیا مذہب کا تقاضہ ہے یا سیاست کا تقاضہ ہے افسوس کے ساتھ یہ سب مذہب کا نہیں سیاست کا تقاضہ ہے ،ہمیں ان چیزوں پر غور کرنا ہوگا،نیٹو اتحاد کا 1949 کا ہی, جو سوویت یونین کے بعد معرض وجود میں آیا،سوویت یونین کے پارہ پارہ ہونے کے بعد امریکہ دنیا کا چودھری بن گیا،آج دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ نہیں امریکہ کی ہے،اب جو پاکستان ہمارے پاس بچ گیا ہے اسے بھی تقسیم کرنے کی سازش ہورہی ہے،پنجاب, سندھ کو قومیت کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی سازش ہورہی ہے،،پختونخواہ اور کراچی بھی اسی سازش کا حصہ ہیں،مجھے امید ہے کہ ہمارے علما, محققین اور سکالرز اس پر ضرور غور کرینگے،کانفرنس میں بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے بیرسٹر ظفراللہ نے کہا کہ حق بات کہنے والے پر ہمیشہ دنیا نے عرصہ حیات تنگ کیا۔

،امام حنفیہ سمیت امام بخاری تک سب بہت سی مشکلات سے گزرے،ہم موجودہ صورتحال میں تبدیلی کیلیے فقہ اور شریعت میں فرق کرنا پڑے گا،اگرہم یہ فرق نہیں کرینگے تو وہیں کھڑے رہیں گے،عہد حاضر بین الاقوامی قوانین کا زمانہ ہے ہمیں بھی بین الاقوامی قوانین کے مطابق لچک پیدا کرنا ہوگی،ہمیں روایت اور جدت میں توازن پیدا کرنا ہوگا تاکہ نظام چلتا رہے بصورت دیگر ہم پیچھے رہ جائینگے دور حاضر میں ہمیں کچھ بنیادی تبدیلیاں کرنا ہونگی ہمیں ۔

ہمیں روایت اور جدت میں توازن پیدا کرنا ہو گا تاکہ نظام کے ساتھ چل سکیں،کانفرنس کے اختتام پر چیئرمیں اسلامی نظریاتی کونسل مولانا محمد مشیر وزیر اعظم بیرسٹر ظفراللہ کو شیلڈ بھی پیش کی، کانفرنس میں مفتی ضیاالحق، علامہ عارف واحدی، ڈاکٹر حسن رضوی ،زاہد محمود قاسمی اور علامہ افتخار نقوی سمیت دیگر تمام مکاتب کے علما اور مزہبی سکالرز نے شرکت کی-