ایک سال میں 36 ہزار مسافر ٹرینیں ، 7 ہزار مال بردار اور روزانہ 180 ٹرینیں چلتی ہیں ، پچھلے 11 سالوں میں ریلوے حادثات کے نتیجہ میں146 افراد جاں بحق اور 1008 زخمی ہوئے۔ جعفر ایکسپریس اور علی پور چھٹہ ٹرین حادثوں کی بنیادی وجہ ڈرائیور تھے ،کراچی حادثے والا ڈرائیور اپنی فیملی کو دیکھنے پچھلی بوگیوں میں تھا، اسسٹنٹ ڈرائیور ٹرین چلا رہا تھا ، پیلا اور سرخ اشاروں کے باوجود 90 کلو میٹر فی گھنٹہ کی سپیڈ سے ٹرین چلاتا رہا جو حادثے کا سبب بنا

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو ریلوے حکام کی بریفنگ ٹرین حادثات کی روک تھام کیلئے دنیا بھر سے معلومات حاصل کر رہے ہیں، ایک ماہ میں ماسٹر پلان تیا رکر لیں گے ، حادثات کے ذمہ دار لوگوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میںلائی جائے گی ، وفاقی وزیر سعد رفیق کی یقین دہانی قائمہ کمیٹی کی ریلوے ٹریک اپ گریڈ کرنے کی سفارش ، آئندہ اجلاس میں ریلوے ملازمین کی صوبہ وائز تفصیلات طلب کر لیں

بدھ 7 دسمبر 2016 21:38

ایک سال میں 36 ہزار مسافر ٹرینیں ، 7 ہزار مال بردار اور روزانہ 180 ٹرینیں ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 07 دسمبر2016ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کوآگاہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میںایک سال میں 36 ہزار مسافر ٹرینیںاور 7 ہزار مال بردار ٹرینیں چلتی ہیں ۔ روزانہ 180 ٹرینیں چلتی ہیں ۔ پچھلے تین سالوںکے دوران کل تین سو ریلوے حادثات ہوئے ۔ 2016 میں72 ، 2015 میں 110 اور 2014 میں72 حادثات ہوئے ۔ پچھلے 11 سالوں میں ریلوے حادثات کے نتیجہ میں146 افراد جاں بحق ہوئے اور 1008 زخمی ہوئے۔

جعفر ایکسپریس اور علی پور چھٹہ ٹرین حادثوں کی بنیادی وجہ ڈرائیور تھے دونوں اوور سپیڈ تھے ۔ علی پور چھٹہ کی سپیڈحد 30 کلو میٹر فی گھنٹہ تھی جبکہ وہ 82 کلو میٹر فی گھنٹہ جا رہا تھا موڑ پر کنڑول نہ کر سکا اور حادثہ ہوگیا ۔اسی طرح کراچی حادثے والا ڈرائیور اپنی فیملی کو دیکھنے پچھلی بوگیوں میں تھا اور اسسٹنٹ ڈرائیور ٹرین چلا رہا تھا ۔

(جاری ہے)

پیلا اور سرخ اشاروں کے باوجود 90 کلو میٹر فی گھنٹہ کی سپیڈ سے ٹرین چلاتا رہا جو حادثے کا سبب بنا، وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ٹرین حادثات کی روک تھام کے لیے دنیا بھر سے معلومات حاصل کر رہے ہیں ایک ماہ میں ماسٹر پلان تیا رکر لیں گے ، حادثات کے ذمہ دار لوگوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میںلائی جائے گی اور کسی ایک بندے کی کوتاہی سے سینکڑوں افراد کی زندگیوں کو دائو پر نہیں لگایا جائے گا،قائمہ کمیٹی نے ریلوے ٹریک کو بہتر اور اپ گریڈ کرنے کی سفارش کر تے ہوئے آئندہ اجلاس میں ریلوے ملازمین کی صوبہ وائز تفصیلات طلب کر لیں۔

کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سردار فتح محمد محمد حسنی کی صدارت میں پارلیمنٹ لاجز میںمنعقد ہوا ۔ اجلاس میں سینیٹرز زاہد خان، تاج محمد آفریدی ، نسیرن جلیل ، لیفٹینٹ جنرل(ر)صلاح الدین ترمذی، اسلام الدین شیخ، ثمینہ عابد کے علاوہ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق ، سیکرٹری ریلوے بورڈ ، ممبر ریونیوپنجاب کے علاوہ دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔

چیف آپریٹر محمود حسین نے قائمہ کمیٹی کو حالیہ ریلوے حادثات بارے تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ۔ کسی بھی حادثے کی انکوائری باہر سے کرائی جاتی ہے تاکہ اپنے لوگوں کو بچایا نہ جا سکے ۔زیادہ تر حادثات کی بنیادی وجہ انسانی کوتاہی سامنے آئی ہے ۔ ۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ وفاقی وزیر ریلوے ادارے کی بہتری کیلئے دن رات محنت کر رہا ہے اور بہتری نظر بھی آرہی ہے مگر ان حادثات کی وجہ سے کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھتے ہیں ۔

وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ انسانی کوتاہی کو کم کرنے کیلئے اقدامات اٹھا رہے ہیں ۔ ہر ٹرین کو چلنے سے پہلے چیک کیا جاتا ہے۔ اگلے دس سالوں میں تین اہم کام کرنے ہیں جن میں سو فیصد ایم ایل ون کی اپ گریڈیشن ، ایم ایل ٹو اٹک کشمور ، کوٹری کو اپ ڈیٹ کریں گے اور ایم ایل تھری روہٹری ، سبی ، کوئٹہ ، تفتان وغیرہ پر کام کیا جائے گا۔ وفاقی وزیر نے یقین دلایا کہ حادثات کے ذمہ دار لوگوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میںلائی جائے گی اور کسی ایک بندے کی کوتاہی سے سینکڑوں افراد کی زندگیوں کو دائو پر نہیں لگایا جائے گا۔

ممبر بورڈ پنجاب ریونیو محمد ثاقب نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ریلوے کی بہاولپور میں12.8ایکٹر زمین ڈی ایچ اے سے واپس وزارت کو بھیجنے کی سمری وزیراعلیٰ پنجاب کو بھیج دی ہے چھ ہفتوں میںمسئلے کا حل ہو جائے گا۔ شالیمار ہسپتال سے 18 ایکڑ زمین وزارت ریلوے کو واپس دلوانے کیلئے چار ہفتے لگیں گے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ قائمہ کمیٹی کو پہلے بھی دو ہفتوں تک معاملات طے کرنے کی یقینی دہانی سینئر ممبر بورڈ پنجاب ریونیو نے کرائی تھی آج پھر دہرایا جارہا ہے ۔

ایک ماہ کے اندر دونوں معاملات حل کیے جائیں جس پر محمد ثاقب نے بتایا کہ وزارت ریلوے نے پنجاب حکومت کی 40 ایکڑزمین پر قبضہ کر رکھا ہے جسے وفاقی وزیر نے معاملہ حل نہ کرنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ نیا شوشا چھوڑا جارہا ہے پہلے کبھی نہیں بتایا گیا ۔ سینیٹر اسلام الدین شیخ نے کہا کہ سکھر ریلوے اسٹیشن کے قریب وزارت ریلوے کی انتہائی قیمتی زمین ہے جس پر لوگ قبضہ کر لیتے ہیںجسے چھوڑانا بہت مشکل ہو جاتاہے اس پر وزارت کوئی مشترکہ منصوبہ شروع کر دے ۔

جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کے چیئرمین کو مشترکہ کمیٹی کیلئے خط لکھا جائے گا تاکہ معاملہ کو حل کیا جا سکے ۔ ممبر خزانہ غلام مصطفی نے قائمہ کمیٹی کو وزارت ریلوے کے بجٹ اور اس کے استعمال کی تفصیلات سے آگاہ کیا انہوں نے کہا کہ تنخواہ کی مد میں بجٹ کا 39 فیصد ، پنشن میں 27 فیصد اور ایندھن میں20 فیصد خرچ ہو جاتا ہے باقی بہت کم بچتا ہے جو اپ گریڈیشن پر خرچ کیا جائے ۔ 11 ہزار کلو میٹر ریلوے ٹریک ہے ۔ (ع ع)