جنوبی ایشیا میں ترقی میں حائل مسائل کے حل کے لیے خطے کے ممالک کو مل کام کرنے کی اشد ضرورت ہے، سرتاج عزیز

ماحولیاتی تبدیلیوں ، صحت، تعلیم ، غربت اور توانائی کے مسائل کی نوعیت یکساں ہے،خطے میں ترقیاتی مسائل اور رکاوٹیں یکساں ہیں جس کے لیے عالمی براری کو مشترکہ جدوجہد کی راہ اپنانا ہو گی، عالمی ترقیاتی مقاصد کے مؤثر طور پر حصول کے لیے قومی، علاقائی اور عالمی سطح پر تعاون کا فروغ ناگزیر ہے،وزیر اعظم کے مشیر، وفاقی وزیر زاہد حامد و بین الاقوامی ماہرین کا پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کی 19ویں سہ روزہ سالانہ پائیدار ترقی کانفرنس کے افتتاحی روز علیحدہ نشستوں کے دوران اظہار خیال

منگل 6 دسمبر 2016 22:24

ْ. اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 دسمبر2016ء) ترقی کی راہ میں حائل مشکلات دنیا کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے دنیا کی مشترکہ جدوجہد ناگزیر ہو چکی ہے۔ اس امر کا اظہار مقررین نے پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی ) کی19 ویں سہ روزہ سالانہ کانفرنس برائے پائیدار ترقی زیر عنوان ’’ مشترکہ مستقبل کا تصور : پائیدار ترقی ‘‘کے افتتاحی روز مقررین نے مختلف نشستوںکے دوران کیا۔

کانفرنس کے افتتاحی روز صحت، توانائی، معیشت اور خدمات کے موضوعات پر گفتگو کی الگ الگ نشستوں کے دوران مختلف ترقیاتی شعبوں کے ماہرین نے اظہار خیال کیا ۔ کانفرنس کیمختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ماہرین اورمندوبین کی بڑی تعداد بھی شریک ہوئی۔

(جاری ہے)

کانفرنس کی افتتاحی نشست سے وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے اجلاس سے اپنے کلیدی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت عالمی ترقیاتی مقاصد (ایس ڈی جیز) کو قومی ترقیاتی اہداف کے طور پر آگے بڑھائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ۔ خطے میں ترقیاتی مسائل اور رکاوٹیں یکساں ہیں جس کے لیے عالمی براری کو مشترکہ جدوجہد کی راہ اپنانا ہو گی۔اس میں آزادانہ تحقیق کرنے والے ادارے اہم معاونت کر سکتے ہیں۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ اسلام آباد میں سارک سربراہ کانفرنس کا انعقاد خطے کے ترقیاتی مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے ایک اہم موقع تھا جسے ملتوی کر کے ضائع کر دیا گیا۔

اس وقت دنیا کو درپیش مشترکہ مسائل کے حل کے لیے ترقی یافتہ ممالک کو ترقی پذیر ممالک کی ترقی میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے میں مدد دینی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی پائیدار ترقی امداد کی بجائے تجارت کے فروغ میں پنہاں ہے اور اس کیلئے جنوب جنوب تعاون بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خطے کے عوام کے بہتر مستقبل اور آئندہ نسلوں کی بہتری کے لیے پاکستان پر امن بقائے باہمی کے اصولوں پر کاربند ہے۔

وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلیاں زاہد حامد نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غربت ہو یا ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات و خطرات، جنوبی ایشیا کے ممالک کو درپیش چیلنجز کی نوعیت یکساں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کا ویژن 2025، عالمی ترقیاتی مقاصد (ایس ڈی جیز) سے مطابقت رکھتا ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ عالمی ترقیاتی مقاصد کے حصول کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر نفاذ اور مانیٹرنگ کے جامع نظام وضع کیے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے شدید خطرات سے دوچار ممالک میں پاکستان کا نمبر 7واں ہے۔انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کلائمیٹ چینج کونسل اور پاکستان کلائمیٹ چینج اتھارٹی جیسے اداروں کا قیام بھی عمل میں لایا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کی مشاورت انتہائی اہمیت کی حامل رہی ہے۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ سرکاری ادارے ایسے اداروں کی تحقیق کو پالیسی سازی میں بروئے کار لائیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کم کرنے کے لیے ہمہ جہت اقدامات کر رہی ہے اور وزیر اعظم کا گرین پاکستان پروگرام، ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات میں کمی لانے میں مدد دے گا۔ قبل ازیں پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی ) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرڈاکٹر عابدسلہری نے کہا کہ کوئی بھی ملک آج کے درپیش عالمی چیلنجز کا تنہا مقابلہ نہیں کر سکتا، مل کر تعاون کی فضا کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے اور غربت، بھوک اور بیماری کا مقابلہ کرنے کے لیے مل کر کام کیا جائے۔سابق سفیر ایس ڈی پی آئی کے چئیر شفقت کاکا خیل نے بھی اس موقع پر اظہار خیال کیا اور کہا کہ عالمی ترقیاتی مقاصد کے مؤثر طور پر حصول کے لیے قومی، علاقائی اور عالمی سطح پر تعاون کا فروغ ناگزیر ہے۔ کلاں معیشت میں پاکستان کی کارکردگی: بعد از آئی ایم ایف کے تناظر میں ہونے والی نشست سے خطاب کرتے ہوئے ایس ڈی پی آئی کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر وقار احمد نے کہا کہ ہمیں قومی اور نچلی سطح پر موجودہ معاشی صورت حال، برآمدات میں خراب کارکردگی، آئی ایم ایف کے بعد کے عہد میں معاشی مواقع اور چیلنجوں وغیرہ جیسے امور کا بھر پور جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

نشست س کے دوران فریڈرک ایبرٹ سٹفٹنگ (ایف ای ایس) کے عبد القادر، پرائم اینسٹی ٹیوٹ کے علی سلیمان، حکومت پاکستان کے سابق مشیر ثاقب شیرانی، ایس ڈی پی آئی کے بورڈ آف گورنرز کی رکن روشن بروچا اور پنجاب بینک کے چئیرمین پرویز طاہر نے بھی اظہار خیال کیا ور کہا کہ بعد از آئی ایم ایف عہد میں حکومت کو مختلف سماجی شعبوں کو ترقی دینے پر توجہ دینی چاہئے۔

’عالمی ترقیاتی مقاصد: صحت کے شعبے میں مواقع اور چیلینج‘ کے موضوع پر منعقدہ نشست کی صدارت پاکستان میں اقوام متحدہ کے ریذیڈنٹ کوآرڈینیٹر، نیل بوہنے نے کی اور اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مانیٹرنگ کے حوالے سے اعداوشمار میسر نہ ہونے کی صحت کے پروگراموں کے معیار پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ انہوں نے کہا اعداوشمار کے معیار کے علاوہ ان تک رسائی میں بہتری لانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

نشست سے نیپال پبلک ہیلتھ فاؤنڈیشن، نیپال کے ڈاکٹر راجندرا کمار، پاپولیشن سٹڈیز ڈویژن ڈھاکہ، بنگلہ دیش کے ڈاکٹر محبوب الہیٰ چوہدری، بیت المال پاکستان کی ڈاکٹر نجمہ افضل خان اور پاکستان شماریات بیورو کے ڈاکٹر سجاد اختر نے بھی اظہار خیال کیا اور عالمی ترقیاتی اہداف، خطے میں صحت کی سہولتوں اور باہمی تعاون کو فروغ دینے پر مبنی مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی۔

عالمی توانائی کا پائیدار توانائی کی جانب سفر کے موضوع پر ایک دوسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کے معاون خصوصی مصدق ملک نے کہا کہ پاکستان مٰیں حکومت توانائی کی عوام تک باکفایت رسائی کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔نشست کے دوران ہنرچ بول سٹفٹنگ(ایچ بی ایس) کی ربیکا برٹن اور مومی سلیم، ترکی سے آئی مندوب ڈاکٹر ٹینے ایار، ورلد ونڈ انرجی ایسوسی ایشن کے ذیشان اشفاق، چائنیز بزنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے تاؤ وینگ نے اظہار خیال کیا اور کہ کہ توانائی کے شعبے کو عوام اور ماحول دوست بنانے کے لیے قانون سازی اور آگاہی کی ضرورت ہے۔

انرجی سمارٹ گرڈ کے موضوع پر نشست کے دوارن سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کے چئیرمین ایم اے جعفر نے کہا کہ چینی کمپنیاں سمارٹ گرڈ ٹیکنالوجی میں پاکستان کی معاونت کر سکتی ہیں جس کی بدولت ملک میں لائن لاسز کی مد میں بجلی کے نقصان پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ایس ڈی پی آئی کے ارشد عباسی، چینی مندوبین زاؤ شن جی، وینگ نان اور ایم اے لن نے بھی گفتگو میں حصہ لیا اور پاکستان میں توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے امکانات پر روشنی ڈالی۔

خدمات کی فراہمی اور حکومتی ذمہ داری کے حوالے سے منعقدہ نشست کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے برطانیہ سے تعلق رکھنے والے مندوب رچرڈ میلٹ اورجارجینا سٹرج کے علاوہ ڈاکٹر بابر شہبازڈاکٹر ایڈم پین اور مرزا جہانی نے جنگ زدہ علاقوں میں لوگوں کے ذرائع گذر بسر کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ایسے علاقوں میں زراعت کی بحالی کے لیے لوگوں کو سہولتیں دینے کے علاوہ ہنرمندانہ تربیت اور مال مویشی پالنے میں مدد دینی چاہئے۔

متعلقہ عنوان :