پامالیکس کیس :سپریم کورٹ نے سماعت7دسمبر تک ملتوی کردی- تمام آپشنز کھلے رکھے ہیں۔ اگراس نتیجے پر پہنچے کہ کمیشن کے بغیر انصاف کے تقاضے پورے نہ ہونگے تو ضرور کمیشن بنائینگے، ایف بی آر اور ایف آئی اے نے کچھ نہیں کیا، اداروں کو کوئی کام نہیں کرنا تو ان کو بند کر دیں۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 6 دسمبر 2016 11:40

پامالیکس کیس :سپریم کورٹ نے سماعت7دسمبر تک ملتوی کردی- تمام آپشنز کھلے ..

ا سلام آباد(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔06 دسمبر۔2016ء) وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پاناما لیکس پر درخواستوں کی سماعت کے دوران حکومتی اور پاکستان تحریک انصاف کے وکلاءکے دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے 3 سوالات اٹھاتے ہوئے کیس کی سماعت 7 دسمبر تک ملتوی کردی۔سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔تحریک انصاف کی جانب سے نعیم بخاری اور وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے سلمان اسلم بٹ پیش ہوئے، اس موقع پر پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اور پارٹی رہنماوں سمیت حکومتی وزراءبھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

(جاری ہے)

دونوں جانب کے دلائل سننے کے بعد جسٹس کھوسہ کی جانب سے 3 سوالات اٹھائے گئے،جن میں پوچھا گیا ہے کہ بچوں نے کمپنیاں کیسے بنائیں؟زیر کفالت ہونے کا معاملہ دوسرا ایشو ہے۔

تیسرا سوال یہ ہے کہ تقریروں میں سچ بتایا گیا ہے یا نہیںاس سے قبل سماعت کے آغاز پر جماعت اسلامی کے وکیل نے ایک بار پھر کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کی تھی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر اس نتیجے پر پہنچے کہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے تو ضرور کمیشن بنائیں گے، تمام آپشن کھلے رکھے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ کہیں کوئی کارروائی نہیں ہوئی تو عدالت عظمی نے معاملہ ٹیک اَپ کیا۔

سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 2014 اور 2015 میں حسین نواز نے اپنے والد کو 74 کروڑ کے تحفے دیئے، جس پر ٹیکس ادا نہیں کیا گیا جبکہ مریم نواز کے اپنے والد کے زیر کفالت ہونے کے واضح ثبوت ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے والد کے زیر کفالت ہونے کے ثبوت سے متعلق استفسار کیا، جس پر نعیم بخاری نے بتایا کہ والد نواز شریف نے مریم صفدرکو 3 کروڑ 17 لاکھ اور حسن نواز کو 2 کروڑ کے تحفے دیئے۔

جسٹس کھوسہ نے نعیم بخاری سے کہا کہ دلائل سے ظاہر ہوتا ہے مریم نواز زیرکفالت ہیں، لیکن مریم نواز کس کی زیرکفالت ہیں؟نعیم بخاری نے کہا کہ مریم نواز چوہدری شوگر مل کی شیئر ہولڈر ہیں، ان کی زرعی اراضی موجود ہے اور 2011 سے 2012 کے دوران ان کے اثاثوں میں بھی اضافہ ہوا لیکن مریم نواز کہتی ہیں کہ ان کی کوئی جائیداد نہیں۔پی ٹی آئی وکیل کا مزید کہنا تھا کہ 2011 میں مریم نواز اپنے والد کی زیرکفالت تھیں، جنھیں نواز شریف نے 3 اور پھر 5 کروڑ تحفے میں دیئے-جسٹس عظمت نے کہا کہ مریم نوازکے فائدہ مند ہونے کی دستاویز کا انہوں نے اعتراف نہیں کیا۔

نعیم بخاری نے حسن نواز کے متعلق دلائل دیئے تو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کرایہ پاکستان سے آتا ہے لیکن وہ بزنس سے آتا ہے، یہ بات نوٹ کی گئی ہے۔نعیم بخاری نے کہا کہ کرایہ کاروبار سے ادا کرنے کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں، 1999 میں حسن نواز طالبعلم تھے، لیکن 2 سال بعد فلیگ شپ کمپنی بنانے کی رقم کہاں سے آئی۔جسٹس کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا حسن نواز کا بیان قطری شہزادے کے خط سے مطابقت رکھتا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ لندن کی جائیداد ان کی تھی اور اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن فلیٹس کا کرایہ پاکستان سے قطر جاتا تھا۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ تمام بیانات کو ملا کر پڑھیں، پیسہ دبئی سے قطر، پھر سعودی عرب اور پھر لندن گیا۔سماعت میں وقفے کے دوران عدالت عظمیٰ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنماو¿ں نے بتایا کہ آج کے دلائل وزیراعظم کے بچوں اور ان کے اثاثوں سے متعلق تھے اور آج تمام شواہدات اور دستاویزات پر گفتگو ہوئی۔پی ٹی آئی ترجمان نعیم الحق نے کہا کہ دستاویزات دے کر نواز شریف کے خلاف کیس ثابت کردیا۔

وقفے کے بعد جب کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وزیراعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے دلائل دیئے اور کہا کہ درخواست گزاروں نے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے۔ان کا کہنا تھا کہ 1992 میں مریم نواز کی شادی کے بعد وہ وزیراعظم کی زیر کفالت نہیں، اس طرح یہ دلائل کے مریم نواز 2011 اور 2012 میں وزیر اعظم کے زیر کفالت نہیں تھیں، درست نہیں۔سلمان اسلم بٹ کا کہنا تھا کہ کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت صرف بیگم کلثوم نواز زیر کفالت تھیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سلمان اسلم بٹ کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ پیسہ کہاں سے آیا یہ آپ نے ثابت کرنا ہے۔سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ مریم نواز کی جائیداد کی تفصیلات فراہم کرنے کے لیے کوئی اور کالم موجود نہیں تھا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ اگر کوئی مخصوص کالم نہیں تھا تو نام لکھنے کی کیا ضرورت تھی، اگر نام لکھنا ضروری تھا تو کسی اور کالم میں لکھ دیتے۔

بعدازاں عدالت نے پوچھے گئے تینوں سوالوں کا جواب مانگتے ہوئے کیس کی سماعت 7 دسمبر تک کے لیے ملتوی کردی، سلمان اسلم بٹ کل اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔ یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈووکیٹ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کی تھیں۔سپریم کورٹ نے 20 اکتوبر 2016 کو وزیراعظم کے خلاف دائر درخواستوں پر وزیراعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز، داماد کیپٹن (ر) صفدر، بیٹوں حسن نواز، حسین نواز، ڈی جی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی ، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی تھی، بعدازاں اس کی سماعت کے لیے یکم نومبر کی تاریخ مقرر کی گئی۔

28 اکتوبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما لیکس پر درخواستوں کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔ لارجر بینچ میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی، جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس امیرہانی مسلم، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الحسن شامل ہیں۔ یکم نومبر کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز کی تحقیقات کے لیے حکومت اور پاکستان تحریک انصاف سے تحقیقاتی کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنسز پر تحریری جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 3 نومبر تک ملتوی کردی تھی۔

3 نومبر کی سماعت میں وزیر اعظم کی جانب سے ان کے وکیل نے جواب داخل کرایا جبکہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے بھی اپنے ٹی او آرز جمع کرائے تھے۔عدالت نے وزیراعظم کے بچوں کی جانب سے جواب داخل نہ کرائے جانے پر برہمی کا اظہار کیا تھا اور وزیراعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ کی سرزنش کی تھی جبکہ جواب داخل کرنے کے لیے 7 نومبر تک کی مہلت دی تھی۔

بعد ازاں تحریک انصاف نے کمیشن کے حوالے سے سماعت کے بعد سپریم کورٹ میں اپنے ٹی او آرز جمع کروائے جبکہ وزیراعظم کے داماد کیپٹن (ر) صفدر نے بھی اپنا جواب اور ٹی او آرز عدالت عظمیٰ میں جمع کرادیا تھا۔7 نومبر کی سماعت میں وزیراعظم کے بچوں حسن نواز، حسین نواز اور مریم صفدر نے جواب داخل کرائے تھے۔اس کے بعد چیف جسٹس نے تمام فریقین کو ہدایت کی تھی کہ وہ 15 نومبر تک دستاویزی شواہد پیش کریں جبکہ کیس کی سماعت بھی 15 نومبر تک کے لیے ملتوی کردی گئی تھی۔

15 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران وزیراعظم اور ان کے بچوں کی جانب سے 400 صفحات سے زائد پر مشتمل دستاویزات عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی گئیں، جن میں وزیراعظم نواز شریف کے ٹیکس ادائیگی سمیت زمین اور فیکٹریوں سے متعلق تفصیلات اور زمینوں کے انتقال نامے بھی شامل تھے۔عدالت میں قطر کے سابق وزیر خارجہ شہزادے حماد بن جاسم بن جبر الثانی کا تحریری بیان بھی پیش کیا گیا تھا۔

متعلقہ عنوان :