فلوٹنگ مینگرووانتہائی اہمیت کے حامل ہیں،ساحلی علاقوں میں مینگروو کوکاشت کرکے نہ صرف موسمی تغیرات پر قابو پانے میں مددملے گی بلکہ اس کے ذریعہ سمندری حیات کا تحفظ بھی ممکن ہوگا۔ ویبک جنسن

پاکستان کے 70 فیصد علاقے سیم وتھور سے متاثر ہیں جن پر ہیلوفائٹ کاشت کرکے نہ صرف غیر روایتی چارے بلکہ ادویات اور توانائی کے تیزی سے کم ہوتے ہوئے ذرائع پر بائیوفیول کے ذریعے قابو پایا جاسکتاہے۔ڈاکٹر قیصر متعدد ممالک بشمول پاکستان کی آباد ی میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے جس کے باعث غذائی قلت کا خدشہ بڑھتا جارہاہے جس کی بڑی وجوہات میں ماحولیاتی تبدیلیاں اور سیم وتھور زدہ زمینوں میں اضافہ ہے۔ڈاکٹر اجمل خان

پیر 5 دسمبر 2016 21:35

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 05 دسمبر2016ء) پاکستان میں یونیسکو کی نمائندہ اور ڈائریکٹر یونیسکوآفس اسلام آباد ویبک جنسن نے کہا کہ عصر حاضر میں فلوٹنگ مینگرووانتہائی اہمیت کے حامل ہیں،ساحلی علاقوں میں مینگرووکوکاشت کرکے نہ صرف موسمی تغیرات پر قابو پانے میں مددملے گی بلکہ اس کے ذریعہ سمندری حیات کا تحفظ بھی ممکن ہوگااور اس کے ذریعے وافر مقدار میں بائیوماس پیدا کیا جاسکتا ہے جس سے توانائی کے حصول میں مددملے گی۔

فضاء میں خارج ہونے والی اضافی کاربن ڈائی آکسائیڈ ماحولیاتی آلودگی کا ایک بڑا سبب ہے جس پر قابوپانے کے لئے کثیر تعداد میں نباتات کی افزائش ضروری ہے اور ساحلی پٹی پر مینگروو کی افزائش سے اس میں بھرپور مدد ملے گی کیونکہ دنیا بھر میں اس قسم کے جنگلات سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ماحول سے جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے مزید کہا کہ یونیسکو گذشتہ 30 برسوں سے سیم اور تھور زدہ زمینوں کو آباد کرنے میں اپناکلیدی کردار اداکررہاہے اور آئندہ بھی اس قسم کی تحقیق کو فروغ دینے کے لئے اپنا مثبت کردار اداکرتارہے گا۔

انہوں نے ادیس ابابا(ایتھوپیا) سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں کا شکریہ اداکیا جن کی مدد سے فلوٹنگ مینگروو کے پروگرام کو پاکستان میں فروغ دینے میں مدد ملے گی ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جامعہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آفس سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائزیشن یونیسکو کے زیر اہتمام انسٹی ٹیوٹ ہذا میں منعقدہ تین روزہ بین الاقوامی سائنرجی اجلاس بعنوان: ’’ نمکیاتی وسائل کے پائیدار استعمال: اقوام متحدہ کے ترقیاتی اہداف خصوصاً متبادل توانائی کے ذرائع کی روشنی میں ‘‘ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد قیصرنے کہا کہ ہیلو فائٹ پر تحقیق وقت کی اہم ضرورت ہے جس سے غیر آباد علاقوں کو یقینا آباد کیا جاسکتاہے۔پاکستان کے 70 فیصد علاقے سیم وتھور سے متاثر ہیں جن پر ہیلوفائٹ کاشت کرکے نہ صرف غیر روایتی چارے بلکہ ادویات اور توانائی کے تیزی سے کم ہوتے ہوئے ذرائع پر بائیوفیول کے ذریعے قابو پایا جاسکتاہے۔

پاکستان میں ہیلو فائٹ کی متعدد اقسام سے کثیر تعداد میں بائیو ماس کا حصول ممکن ہے جس سے بائیو فیول مرتب کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔انہوں نے انسٹی کے کی جانب سے کی جانے والی تحقیقی کاوشوں کا سراہا اور امید ظاہر کی یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔جامعہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائزیشن کے بانی ڈائر یکٹر پروفیسر ڈاکٹر اجمل خان نے کہا کہ متعدد ممالک بشمول پاکستان کی آباد ی میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے جس کے باعث غذائی قلت کا خدشہ بڑھتا جارہاہے جس کی بڑی وجوہات میں ماحولیاتی تبدیلیاں اور سیم وتھور زدہ زمینوں میں اضافہ ہے۔

عصر حاضر میں غذائی قلت کے پیش نظر غیر روایتی فصلوں پر تحقیق کی اشد ضرورت ہے اور مذکورہ انسٹی ٹیوٹ اسی مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے قائم کیا گیا۔اس سلسلے میں ہائرایجوکیشن کمیشن اور جامعہ کراچی کی جانب سے مالی معاونت لائق تحسین ہے ۔اس قسم کی تحقیق سے نہ صرف غیر آبادزمینوں کو ہیلو فائٹ کے استعمال سے آباد کیا جاسکتا ہے بلکہ غذائی قلت اورغربت پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اکیڈیمیاء اور انڈسٹریز کے اشتراک سے اس قسم کی تحقیق کو فروغ دیا جائے لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں تحقیق انڈسٹریز کی ترجیحات میں شامل نہیں ۔مقامی وسائل کو بروئے کار لاکر متعدد شعبوں میں تحقیقی عمل کو فروغ دیا جاسکتا ہے،اس ضمن میں مختلف اندسٹریز نے ہیلو فائٹ کی تحقیق میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔جامعہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائزیشن کی ڈائریکٹر پروفیسرڈاکٹر بلقیس گل نے پروگرام کے آخر میں کلمات تشکر اداکرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ کانفرنس کا مقصد مختلف ممالک کے ماہرین یکجا کرکے ماحولیاتی تبدیلیاں اور سیم وتھور زدہ زمینوں کو قابل کاشت بنانے کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنا ہے۔

انہوںنے بطورخاص یونیسکو،ہائرایجوکیشن کمیشن،جامعہ کراچی اورسندھ اینگروکول مائیننگ کمپنی کے تعاون پر ان کا شکریہ اداکیا۔#

متعلقہ عنوان :