بدعنوانی پائیدار اقتصادی ترقی اور مستحکم معاشرے کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے

چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری کا ہائر ایجوکیشن کمیشن میں سیمینار سے خطاب

پیر 5 دسمبر 2016 19:44

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 05 دسمبر2016ء) قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین قمر زمان چوہدری نے کہا ہے کہ بدعنوانی پائیدار اقتصادی ترقی اور مستحکم اور اخلاقی معاشرے کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، نوجوان قوم کا عظیم اثاثہ ہیں۔ انہیں اس ناسور کیخلاف گلی محلوں میں آگاہی پیدا کرنے کیلئے انسداد بدعنوانی کے اداروں سے مکمل تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہائر ایجوکیشن کمیشن میں بدعنوانی کی روک تھام میں نوجوانوں کے کردار کے عنوان سے سیمینار سے مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن پروفیسر مختار احمد، مختلف یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز، سینئر فیکلٹی ممبران اور بڑی تعداد میں طلباء نے سیمینار میں شرکت کی۔

(جاری ہے)

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری نے کہا کہ تمام ممالک کو بدعنوانی کے ناسور کا چیلنج درپیش ہے۔

اس سے سماجی اور اقتصادی ترقی متاثر ہوتی ہے۔ امریکی میگزین فارن پالیسی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ہر سال ڈیڑھ کھرب ڈالر رشوت لی جاتی ہے جو کہ عالمی شرح نمو کا 5 فیصد ہے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں میں بدعنوانی کا ناسور موجود ہے تاہم ان ملکوں میں بدعنوانی کی شرح کا فرق موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ملکوں میں بدعنوانی کی شرح بہت کم ہے جہاں لوگوں کو روز مرہ کے معاملات میں اس ناسور کا بہت کم سامنا کرنا پڑتا ہے تاہم اس کے مقابلے میں پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں جہاں قوم کا ہر پیسہ غربت کے خاتمے اور لوگوں کی بہتری پر خرچ کیا جانا چاہئے اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اس سے سفید پوش طبقہ کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس سے نہ صرف ان کو سہولیات کی فراہمی میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں بلکہ قومی خزانے پر بھی بوجھ پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ احتساب کا عمل مرکزی نکتہ ہے جہاں ہمیں بدعنوانی کے خاتمے کیلئے ذہنوں کو تبدیل کرنے اور اس کیخلاف زیرو ٹالرننس کی پالیسی پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ بدعنوانی کے کامیابی سے خاتمے کیلئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔

نوجوانوں کو بدعنوانی کے خاتمے کیلئے معاشرے کے تمام طبقوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ نوجوان مستقبل کا سرمایہ ہیں اور وہ ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان کے ذمہ دارانہ رویئے اور معاشرے میں مثبت کردار سے ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہماری آبادی کا ساٹھ فیصد نوجوان ہیں جن کی عمر 30 سال سے کم ہے، انہیں بدعنوانی کے برے اثرات سے معاشرے میں آگاہی پیدا کرنے کیلئے انسداد بدعنوانی کے اداروں سے تعاون کرنا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ بدعنوانی کی روک تھام کیلئے کمیونٹی کی سطح پر متعدد اقدامات کئے گئے ہیں جس کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک بیڈگورننس کا تعلق ہے تو افراد کو بدعنوانی کیخلاف مہم سے متعلق مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہئے اس سے لوگوں کے رویئے میں تبدیلی آئے گی اور ان کے عمل میں نمایاں تبدیلی ہو گی۔ یہ وژن طریقہ کار منفرد ہے۔

اس طریقے پر عملدرآمد سے لوگوں کی زندگیوں سے بدعنوانی کے ناسور کا خاتمہ ہو گا۔ منفرد کامیابیاں حاصل کرنے والے تمام افراد کو ابتداء میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن جب انہوں نے اپنی سوسائٹی کو اس میں شامل کیا تو لوگ ان کے ساتھ شامل ہوئے اور انہیں کامیابی ملی۔ لوگ اچھے اقدامات کیلئے مخلص لوگوں کو دیکھتے ہیں لیکن جب اچھے لوگ سامنے نہیں آتے تو برے لوگ خلاء کو پر کرتے ہیں۔

لوگوں کے پاس ان کو برداشت کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ گراس روٹ لیول پر نوجوانوں کا اہم کردار ہے کیونکہ قیادت نچلی سطح سے اوپر آتی ہے جس سے نئے جمہوری کلچر کو فروغ ملتا ہے، ترقی کا نیا وژن تشکیل پاتا ہے اور تنظیمی کلچر کو فروغ ملتا ہے۔ نیب نوجوانوں کی شراکت سے انسداد بدعنوانی کیلئے ان نمایاں پہلوئوں پر کام کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں میں بدعنوانی کے برے اثرات سے آگاہی پیدا کرنے کیلئے نیب اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کئے تاکہ معاشرے سے بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔

نیب ملک سے بدعنوانی کے خاتمے اور تدارک کا قانونی اختیار رکھتا ہے۔ نیب ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے ملکر نوجوانوں میں بدعنوانی کے برے اثرات سے آگاہی پیدا کرنے کیلئے پرعزم ہے۔ اس مہم کے تحت نیب نے ملک بھر کے سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں 42 ہزار سے زائد کردار سازی کی انجمنیں قائم کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیب کی موجودہ انتظامیہ نے بدعنوانی کی روک تھام اور اختیارات کے ناجائز استعمال کو ابتدائی سطح پر روکنے کیلئے نمایاں اقدامات کئے ہیں۔

نیب نے بدعنوانی کی روک تھام اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی روک تھام کیلئے نیب آرڈیننس کے سیکشن 33 کے تحت پریوینشن کمیٹیاں قائم کی ہیں جو کہ سرکاری اداروں میں بدعنوانی کی روک تھام کیلئے قواعد و ضوابط میں ترامیم تجویز کرتی ہیں، یہ کمیٹیاں سرکاری اداروں، محکموں اور وزارتوں جیسا کہ صحت، تعلیم، وزارت مذہبی امور و ہم آہنگی، محکمہ پولیس اور محکمہ کوآپریٹو میں عوام کے ساتھ بہتر رابطہ کیلئے تشکیل دی گئی ہیں۔

یہ پریوینشن کمیٹیاں نیب، سینئر سرکاری افسران، متعلقہ شعبہ کے ماہرین اور نمایاں شخصیات پر مشتمل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیب ہیڈ کوارٹرز اور نیب کے علاقائی بیوروز میں بھی سفارشات کیلئے مختلف پریوینشن کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیب کی قانون پر عملدرآمد کی کوششوں سے بدعنوانی کی روک تھام میں مجموعی طور پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں، 2015ء میں برلن سے جاری ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں پاکستان 175 ممالک میں سے 117 ویں نمبر پر آ گیا ہے، یہ پاکستان کی گذشتہ سالوں میں سب سے بہترین درجہ بندی ہے۔

پلڈاٹ کی رپورٹ کے مطابق 42 فیصد لوگ نیب پر اعتماد کرتے ہیں جبکہ 29 فیصد پولیس اور 26 فیصد دیگر سرکاری محکموں پر اعتماد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ تین سالوں کے درمیان احتساب عدالتوں میں نیب کے مقدمات نمٹانے میں بہتری آئی ہے۔ رواں سال کے پہلے 9 ماہ کے دوران یہ شرح 76 فیصد رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم بدعنوانی کو دیکھتے ہوئے بھی خاموش رہتے ہیں تو اس سے بدعنوانی کو فروغ ملتا ہے، وسائل کا ضیاع ہوتا ہے، ہمیں اس کینسر کے خاتمے کیلئے موثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ زندگی کے تمام شعبہ کے افراد کو نیب کی بدعنوانی کے خاتمے کی مہم میں حصہ لینا چاہئے تاکہ مستقبل میں پاکستان کو مزید اور خوشحال بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ انسداد بدعنوانی کا عالمی دن 9 دسمبر کو منایا جاتا ہے اس سے پہلے چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن پروفیسر ڈاکٹر مختار احمد نے چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری کی قیادت میں نیب کی کارکردگی کو سراہا اور بدعنوانی کیخلاف مہم میں اپین مکمل تعاون کا یقین دلایا۔

متعلقہ عنوان :