اشرف غنی نے بھارت کو خوش کرنے کیلئے پاکستان کیخلاف بیان دیاجو ناقابل فہم اور قابل مذمت ہے، ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں یکطرفہ تصویر پیش کی گئی،بھارتی میڈیا نے پاکستان پر دبا ڈالنے کیلئے دہشتگردی کا شوشہ چھوڑا،کسی ملک پر الزام تراشی کرنے سے امن نہیں آ سکتا،میری اشرف غنی سے بھی ملاقات ہوئی میں نے انہیں یقین دلایا کہ پاکستان افغانستان میں امن کے قیام کی خواہش رکھتا ہے، افغان صدر پر واضح کر دیا کہ پاک افغان سرحد پر سکیورٹی کا موثرانتظام ضروری ہے، افغانستان میں سکیورٹی کی صورتحال نہایت کشیدہ ہے، افغانستان اور بھارت میں کوئی بھی حملہ ہو الزام پاکستان پر لگا دیا جاتا ہے حالانکہ ہم امن کو فروغ دینے کیلئے ہر ممکن اقدام اٹھا رہے ہیں،اجیت دوول سے صرف اتنی بات ہوئی کہ اگر ایل او سی پر کشیدگی رہے گی تو بات چیت اور تعلقات کیسے بہتر ہوں گے،پاکستانی سرزمین کسی کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیں گے،ایرانی وزیر خارجہ سے تاپی گیس منصوبے پر بھی بات ہوئی، مجھے ہوٹل سے باہر نہیں آنے دیاگیا اور سکیورٹی کے نام پر صحافیوں سے بات نہ کرنے دی جس کی وجہ سے واپس آ کر صحافیوں سے بات کرنے کا فیصلہ کیا، بھارت میں سکیورٹی انتظامات تسلی بخش نہیں تھے

مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے بعد وطن واپسی پر پریس کانفرنس

اتوار 4 دسمبر 2016 23:10

�ٓاسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 04 دسمبر2016ء) مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ اشرف غنی نے بھارت کو خوش کرنے کیلئے پاکستان کیخلاف بیان دیاجو ناقابل فہم اور قابل مذمت ہے، ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں یکطرفہ تصویر پیش کی گئی،بھارتی میڈیا نے پاکستان پر دبا ڈالنے کیلئے دہشتگردی کا شوشہ چھوڑا،کسی ملک پر الزام تراشی کرنے سے امن نہیں آ سکتا،میری اشرف غنی سے بھی ملاقات ہوئی میں نے انہیں یقین دلایا کہ پاکستان افغانستان میں امن کے قیام کی خواہش رکھتا ہے، افغان صدر پر واضح کر دیا کہ پاک افغان سرحد پر سکیورٹی کا موثرانتظام ضروری ہے، افغانستان میں سکیورٹی کی صورتحال نہایت کشیدہ ہے، افغانستان اور بھارت میں کوئی بھی حملہ ہو الزام پاکستان پر لگا دیا جاتا ہے حالانکہ ہم امن کو فروغ دینے کیلئے ہر ممکن اقدام اٹھا رہے ہیں،اجیت دوول سے صرف اتنی بات ہوئی کہ اگر ایل او سی پر کشیدگی رہے گی تو بات چیت اور تعلقات کیسے بہتر ہوں گے،پاکستانی سرزمین کسی کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیں گے،ایرانی وزیر خارجہ سے تاپی گیس منصوبے پر بھی بات ہوئی، مجھے ہوٹل سے باہر نہیں آنے دیاگیا اور سکیورٹی کے نام پر صحافیوں سے بات نہ کرنے دی جس کی وجہ سے واپس آ کر صحافیوں سے بات کرنے کا فیصلہ کیا، بھارت میں سکیورٹی انتظامات تسلی بخش نہیں تھے۔

(جاری ہے)

اتوارکو مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے بھارت کے شہر امرتسر میں منعقد ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے بعد وطن واپس پہنچنے کے بعد دفتر خارجہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہارٹ آف ایشیا کا مشترکہ اعلامیہ متوازن ہے۔بھارتی میڈیا نے دباؤڈالنے کے لیے دہشتگردی کا معاملہ اچھالا۔دہشتگردی کے خاتمے کیلیے تمام ممالک کو مل کر کام کرنا ہو گا۔

دورہ بھارت سے کم از کم مجھے کسی بریک تھرو کی توقع نہیں تھی۔اگرمقبوضہ کشمیرمیں مسئلہ نہیں توبھارت نے 7 لاکھ فوج کیوں رکھی ہی ۔بھارت کشمیرسے توجہ ہٹانے کیلیے دہشتگردی کی بات کرتا ہے۔جب بھی بھارت میں انتخابات ہوتے ہیں، پاکستان مخالف بیانات آتے ہیں۔اگرمیڈیا کے ذریعے بات چیت کریں گے تومعاملات بگڑیں گے۔بھارتی وزیر اعظم نیر یندر مودی،ارن جیٹلی،اجیت دوول ودیگرسے سائیڈلائن پربات ہوئی۔

ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا اعلامیہ متوازن ہے۔جوپریس کانفرنس یہاں کررہا ہوں،بھارت میں کرنا چاہتا تھا۔مجھے چالیس منٹ تک نہیں روکا گیا۔دہشتگردی کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں ہے،دہشتگردی کے خاتمے کیلیے تمام ملکوں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔بھارت میں پاکستانی میڈیا سے جو سلوک کیا گیا وہ ہر گز درست نہیں تھا۔بھارت جاتنا ہے کہ ہم نے دہشتگردی کیخلاف بہت اقدامات کیے۔

بھارت بارباردہشتگردی کا ذکر کرکے کشمیر سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔جس سے ملاقات ہوئی سب نے کہا کہ اچھا ہوا آپ کانفرنس میں آئے۔کانفرنس میں پاکستان کاموقف تھا کہ افغان معاملے پر متوازن سوچ اپنائی جائے۔بھارت میں سیکیورٹی کا معاملہ عجیب تھا کسی کو آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔افغان صدرسے ملاقات میں پاکستان کے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔

افغان صدر پر واضح کیا کہ سرحد پرموثرانتظام بھی ضروری ہے۔بھارتی سیکیورٹی افسرکسی کوآنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے ۔بھارتی میڈیانے دباؤڈالنے کے لیے دہشتگردی کا معاملہ اچھالا ۔کسی ملک پرالزام تراشی سے امن نہیں آسکتا۔ایران کے وزیر خارجہ سے ملاقات سود مند رہی ۔پاکستانی سرزمین کسی کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیں گے۔پاکستان کو بھی دہشتگردی کا سامنا ہے۔

وزیر خارجہ جواد ظریف سے تاپی گیس منصوبے پر بھی بات ہوئی۔افغان صدر اشرف غنی کا بیان قابل مذمت ہے۔افغانستان میں سیکیورٹی کی صورتحال بہت کشیدہ ہے۔سائڈلائن پرایران کے وزیر خارجہ سے ملاقات ہوئی ۔بھارتی میڈیا نے دہشتگردی کے تناظر میں پاکستان پر دباؤ ڈالنیکی کوشش کی۔دہشتگرد تنظیموں کے خلاف کارروائی قومی لائحہ عمل کا حصہ ہے۔دہشتگرد تنظیموں کے خلاف کارروائی قومی لائحہ عمل کا حصہ ہے۔

ہمارا مقصد تھا کہ دو طرفہ تعلقات افغانستان پر اثر انداز نہ ہوں۔ایل او سی پر کشیدگی کے باوجود ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کی۔افغانستان میں امن اوراستحکام دیکھنا چاہتے ہیں۔تناؤ کے باجود بھارت کا دورہ کیا،یہ ایک اچھا فیصلہ تھا۔مسائل کا پر امن حل ہی علاقائی تعاون کو بہتر بنائے گا۔افغانستان میں امن کسی ملک پر الزام تراشی سے نہیں آ سکتا۔

الزامات نہیں، بامقصد اور متفقہ لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔انہوں نے پڑوسی ملکوں کو کہاکہ الزام نہ لگاؤ، کچھ مثبت کام کرکے دکھاؤ۔افغانستان پر گذشتہ کئی ہفتوں سے زیر غور اعلامیہ کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔بھارتی میڈیا نے حقانی نیٹ ورک , جماعت دعوی اور دیگر جماعتوں پر ایسے پروپیگینڈا کیا کہ جیسے یہ سب نئی ہیں۔تاہم مشترکہ اعلامیہ میں ٹی ٹی پی اور دیگر جماعتوں کو بھی شامل کیا گیا۔

ہم نے گزشتہ تین چار برس میں جتنی انسداد دہشت گردی کی اتنا کسی اور ملک نے نہیں کیا۔میں نے اشرف غنی کے ساتھ ملاقات میں انہیں یقین دلایا کہ پاکستان اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے عزم پر قائم ہے۔اپنے خطاب میں میں نے زور دیا کہ افغانستان کے معاملے پر طاقت کا استعمال مسیلے کا حل نہیں۔سایڈ لاینز پر جواد ظریف اور ترکمانستان کے وزیر خارجہ سے مثبت ملاقاتیں ہوئیں۔

ترکمان وزیر خارجہ سے ملاقات میں ہم نے ترکمانستان کی پاکستان سے منسلکی کے معاہدے پر تفصیلی غور کیا۔چینی نایب وزیر خارجہ سے اچھی ملاقات ہوئی اور افغانستان میں قیام امن پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ہم نے با ضابطہ طور پر کسی بھارتی راہنما سے ملاقات کی درخواست نہیں کی تھی۔افغانستان کے ساتھ آزادانہ و غیر جانبدارانہ تعلقات ہیں۔آنے والے دنوں میں افغانستان میں قیام امن کے لیے دونوں ممالک کے عوام یک جہتی چاہیں گے۔

ہم نے افغانستان میں 500ملین ڈالرز کے منصوبوں کا وعدہ کیا۔جس ہوٹل میں ہم ٹھرے تھے وہاں کسی اور کو داخلے کی اجازت نہیں تھی جو کہ عجیب تھا۔ایک روز قبل جانے کا فیصلہ مثبت تھا۔بھارتی حکام کے ساتھ کوئی ٹھوس ملاقاتیں نہیں ہوئیں کہ جن کو نتیجہ خیز کہا جا سکے۔اشرف غنی کو مطلع کیا کہ بارڈر مینجمنٹ ضروری ہے۔ہمیں بھی افسوس ہوتا ہے کہ جب یہاں پر دھماکہ ہوتا ہے اور اس کا تعلق افغانستان سے ملتا ہے۔زمینی حالات پر قابو پائیں تو مسایل خود بخود حل ہوں گے۔(و خ)