پاکستان مجموعی آبادی میں نوجوانوں کی اکثریت،معدنیات اور جغرافیائی اہمیت کیوجہ سے سونے کی کان ہے ‘ احسن اقبال

چائنہ پاکستان راہداری منصوبے کو دیکھتے ہوئے دوسرے ممالک بھی سرمایہ کاری کیلئے پاکستان کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں اے پی سی میں طے پانے والی ڈی آئی خان سے برہان تک نئی سڑک پر تیزی سے کام ہو رہا ہے،2018ء تک مکمل ہو جائیگی

اتوار 4 دسمبر 2016 13:30

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 دسمبر2016ء) وفاقی وزیرمنصوبہ بندی ،ترقی و اصلاحات احسن اقبال نے کہا ہے کہ چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کو دیکھتے ہوئے دوسرے ممالک بھی سرمایہ کاری کیلئے پاکستان کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں ،پاکستان سونے کی کان ہے ،یہاں 200ملین کی آبادی میں دو تہائی نوجوان ہیں جبکہ معدنیات کے ساتھ ہم اپنی جغرافیائی اہمیت کے ہاعث تین ارب کی آبادی کے درمیان رابطے کا آسان ذریعہ بھی ہیں۔

ایک انٹر ویو میں انہوں نے کہا کہ میں واضح کر دوں کہ چائنہ پاکستان اقتصادی راہدری منصوبے جس کے منصوبے کی دستاویز خیبر پختوانخواہ کے وزیر اعلیٰ کو بھی دی گئی تھی اس میں تسلیم کیا گیا تھا کہ پاکستان اور چین کے درمیان جو رابطہ ہے وہ پاکستان کے سڑک کے نیٹ ورک کے ذریعے بنایا جائے گا اور اس میں جہاں گیپ ہیں وہ پورے کئے جائیں گے اور جہاں اپ گریڈیشن کی ضرورت ہے اس کو اپ گریڈ کیا جائے گا ۔

(جاری ہے)

جو مغربی اورمشرقی روٹ کی بات کی جاتی ہے اس میں ایسا نہیں کہ سی پیک کے تحت کوئی نئے روٹ بنائے جارہے ہیںبلکہ پاکستان میں پہلے ہی یہ روٹ موجود تھا جس کے تحت اس رابطے کو قائم کیا جارہا ہے ۔ میں نے بارہا کہا تھاکہ ہم مغربی روٹ کو دسمبر 2016ء سے پہلے فنکشنل کر دیں گے اور الحمد اللہ جو چالیس کنٹینرز کا قافلہ آیا وہ مغربی روٹ کے ذریعے گوادر گیا اور یہ نومبر میں کیسے فنکشنل ہو گیا کیونکہ ہم نے ساڑھے چھ سو کلو میٹر کا گوادر اور کوئٹہ کے درمیان مسنگ لنک تھا اس پر ایف ڈبلیو او کے ذریعے بہت تیزی سے کام کیا ہے ۔

اب مغربی روٹ کا مسنگ لنک مکمل ہو گیا ہے اور آج ایک ٹرک گوادر سے چل کر کوئٹہ جا سکتا ہے وہاں سے ڈیرہ اسماعیل خان سے ملک کے دوسرے حصوں میں جا سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ آل پارٹیز کانفرنس میں ڈیرہ اسماعیل خان سے برہان تک نئی سڑک بنانے کی جو بات ہوئی تھی اس پر بہت تیزی سے کام ہو رہا ہے اور یہ 2018ء تک مکمل ہو جائے گی۔جب سے کنٹینرز کا قافلہ مغربی روٹ پر چل کر گیا ہے تو وہ لوگ جو کہتے تھے کہ حکومت مغربی روٹ میں سنجید ہ ہیں نہیں ان کو یہی جواب کافی ہے ۔

جس مشرقی روٹ کی بات کی جارہی ہے وہ اس طرح نہیں بلکہ وہ پشاو ر ، کراچی موٹروے کا منصوبہ ہے جو 1990-91ء میں شروع ہوا تھا اور پچیس سال میں صرف لاہور تک پہنچا تھا ۔ اگر سی پیک نہ بھی ہوتا تو یہ ہمارے منشور کا وعدہ تھاکہ لاہور سے کراچی تک مکمل کر کے پشاور تک موٹر وے بنائیں گے جہاں پر آپ کی ستر فیصد پسنجر اور کارگو ٹریفک ہے اور یہ ادھورا تھا جو اب 2019ء میں مکمل ہوگا ۔

وزیر اعظم نواز شریف کا وژن ہے کہ ہمیں وسطی ایشیاء ، مغربی ایشیاء کے درمیان انفراسٹر اکچر کے ذریعے سے رابطہ قائم کر کے خود کو خطے میں معاشی طور پر مضبوط کرنا چاہیے ۔سنٹرل ایشیاء ریجن اکنامک کوآپریشن کے فریم ورک کے تحت دو سڑکیں بنانے کی تجویزہو رہی ہیں اور اس پر کام کر رہے ہیں کہ پشاور سے کابل تک ایک ایکسپریس وے بنائیںجس سے افغانستان سے ناردرن ایریا میں اچھا رابطہ قائم ہو ۔

دوسرا رابطہ سائوتھ افغانستان ، عراق کے ذریعے ترکمانستان اور سنٹرل ایشیاء لے کر جانا چاہتے ہیں تاکہ یہاں سے بھی ہمارا براہ راست رابطہ بنے ۔ اس کے علاوہ تاپی گیس منصوبہ جسے سرد خانے سے نکالا گیا ہے یہ بھی تین سے چار سالوں میں مکمل ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ گوادر سے کوئٹہ تک جوساڑھے چھ سو کلو میٹر سڑک مکمل کی گئی ہے اس نے گوادر کو کوئٹہ کے ساتھ ہی نہیں بلکہ گوادرسے آگے افغانستان ، ایران اور سنٹرل ایشیاء سے بھی جوڑ دیا ہے ۔

اب ہم ایسی بھی سڑکیں بنا رہے ہیں جس سے تفتان سے شارٹ کٹ کے ذریعے براہ راست گوادر تک پہنچ سکیں گے اور ایران اور گوادر کا جو رابطہ وسطی ایشیاء کی طرف ہے وہ بھی شارٹ ہو جائے گی ۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ چترال سے تاجکستان جو بیلٹ ہے اس پر کام کریں اور اس کے لئے افغانستان کو قائل کریں کہ وہ بھی ہمارے ساتھ مل کر کام کرے ۔

متعلقہ عنوان :