بین الاقوامی ہدف حاصل کرنے کے لئے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی لگانے کی ضرورت ہے، حکومت کے ساتھ ساتھ ہم کو بھی تعلیم کے لئے کام کرنا چاہے تا کہ سوسائٹی کو تعلیم سے روشناس کیا جاسکے‘ڈاکٹر پیر زادہ قاسم کا آرٹس کونسل میں نویںعالمی اُردوکانفرنس 2016ء سے خطاب

جمعہ 2 دسمبر 2016 22:41

کراچی ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 02 دسمبر2016ء) ڈاکٹر پیر زادہ قاسم نے کہا ہے کہ بین الاقوامی ہدف حاصل کرنے کے لئے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی لگانے کی ضرورت ہے، تعلیمی پالیسیاں ٹھیک ہیں مگران پر عمل کرنے کی ضرورت ہے، حکومت کے ساتھ ساتھ ہم کو بھی تعلیم کے لئے کام کرنا چاہے تا کہ سوسائٹی کو تعلیم سے روشناس کیا جاسکے۔ یہ بات انہوں نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری نویںعالمی اُردوکانفرنس 2016ء کے دوسرے روز جمعہ کو ’’زبان وادب کا فروغ اور نصاب تعلیم‘‘ کے موضوع پر منعقدہ اجلاس سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہی۔

اس موقع پر سید جعفر احمد نے ’’سماجی علوم کی تدریس اور جدید دنیا‘‘ پروفیسر ہارون رشید نے ’’نصاب تعلیم اور عصری تقاضے‘‘ نجیبہ عارف ’’زبان وادب کافروغ نصاب‘‘، پروفیسر انیس زیدی نے ’’ہمارا تعلیمی نظام اور عصر حاضر کے رحجانات‘‘ اور نعمان نقوی نے لبرل آرٹس اور ہمارا نصاب پر مقالے پڑھے جبکہ نظامت نزہت عباسی نے کی۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر پیر زادہ قاسم نے کہا کہ ہم بین الاقوامی طور پر دنیا سے تعلیم میں 60 سال پیچھے ہیں۔

2015ء تک ہم کو جی ڈی پی کا 4 اعشاریہ تعلیم پر خرچ کرنا تھا ہم نے اس کا 1 اعشاریہ 30 خرچ کیا ہے ایسے میں ہم بین الاقوامی دنیا کے دیئے گئے ہدف کو پورا ہی نہیں کر پائے، ہما ری کارگردگی صفر ہے پاکستان میں تعلیم کے ساتھ جہالت انتہائی درجہ کی ہوگئی ہے جس میں جذباتیت نے اس کو اور مشکل بنا دیا ہے اور جونظام تعلیم ہمارے ہاں رائج ہے اس میں کامرس میں تعلیم حاصل کرنے والا کیمسٹری اور فزکس نہیں جانتا جس سے ہمارا تعلیمی نظام کو نقصان ہوا ہے ہم ڈاکٹرز اور انجینئرز بناتے ہیں ان کو انسان نہیں بناتے ان کو ادب آنا چاہیے ورنہ ہم ایسی دنیا نہیں بنا سکتے جس میں تعلیم یافتہ معاشرہ تشکیل پاسکے گا۔

انہوں کہا کہ ملک میں بڑی بڑی ایمرجنسیاں لگی ہیں مگر کبھی بھی تعلیم کی ایمرجنسی نہیں لگا ئی گئی کہ معاشرے میں بہتری آئے ہم نے بھی کام حکومت پر چھوڑ دیا ہے وہ اکیلے ہی کریںہمیں چاہیے کہ تعلیمی نظام کی تبدیلی کے لئے تحریک شروع کریں۔ سید جعفر احمد نے کہا کہ پاکستان کی جامعات میں تحقیق کے کام پر توجہ نہیں دی جاتی ہے 148جامعات میں سے صرف 15جامعات میںسماجی بہبود کی تعلیم دی جا رہی ہے جو مایوس کن بات ہے۔

پروفیسر ہارون رشید نے کہا کہ پاکستا ن تعلیمی اعتبار سے پوری دنیا سے پیچھے ہے، ہمارا نصاب پرانا ہے اس کو تبدیل کرنے کی ضروت ہے سندھ کا تعلیمی بجٹ 130ارب ہے اس میں90 ارب ٹیچرز کی تنخواہوں میں دیئے جاتے ہیں15 فیصد خرچ ہوتا ہے اس سے کیا بہتر تعلیم حاصل ہوسکتی ہے۔ نجیبہ عارف نے کہا کہ ہمارا پرانا نظام تعلیم اس وقت کے تعلیم نظام سے اچھا تھا جس سے بچے بہتر تعلیم حاصل کر پاتے تھے آج کا تعلیمی نظام بچوں کو تعلیم تو دے رہا ہے مگر اس سے مضبوط تعلیم حاصل نہیں کی جاسکی۔

پروفیسر انیس نے کہا کہ تعلیم میں ہم نے معاشرے میں مڈل کلاس، لوئر کلاس، اپر کلاس کا تضاد قائم کررکھا ہے اور اسی طرح تعلیم کے نظام میں بھی مڈل کلاس، لوئر کلاس، اپر کلاس چل رہا ہے ہم نے تعلیم میں کمپیوٹر سے لے کر لیپ ٹاپ تو آگئے ہیں مگر نصاب کو تبدیل کرنے کے لئے ہم تیار نہیں ہیں، ہم احتساب سے بچتے ہیںاور ذمہ داری لینے سے گھبراتے ہیں بین الاقوامی تعلیمی اداروں میں ہمارے تعلیمی اداروں کی کوئی حیثیت نہیں ہے ہم نے سائنس و ٹیکنالوجی میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔

ہمارے اساتذہ جدید تعلیم سے ناواقف ہیں تعلیم مذہبی عقیدت کے ساتھ ساتھ خارجی تعلیم بھی ضروری ہے۔ ڈاکٹر نعمان نقوی نے کہاکہ لبرل آرٹس کا مطلب تعلیم کے حوالے سے بہتر تعلیم دینا ہے جو مکمل تاریخی حوالے سے ہو، تعلیم کے حوالے سے ہم کو نصاب میں جدیدیت لانے کی ضرورت ہے لبرل سائنس تمام علوم کو سیکھنے کا نام ہے۔

متعلقہ عنوان :