سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی انسانی حقوق کا لا پتہ افراد بارے معاملے پر وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کے جواب نہ دینے کے خلاف ایوان بالا میں تحریک استحقاق لانے کا فیصلہ

، ہندو میرج بل2016 پر مزید غور اور ہندو برادری کے موقف جاننے کیلئے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ہندو ارکان آئندہ اجلاس میں مدعو توہین رسالت قانون پر عمل درآمد کے طریقہ کار کو بہتر بنانے اور غلط استعمال روکنے کیلئے 1992کی سینیٹ کمیٹی کی رپورٹ کی سفارشات کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل تیار کیا جائے گا،چیئرپرسن کمیٹی کے ریمارکس

جمعہ 2 دسمبر 2016 19:43

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 02 دسمبر2016ء) سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کا لا پتہ افراد بارے 2دفعہ خط لکھنے اور تیسری مرتبہ یاد دہانی کرانے کے باوجود وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کی طرف سے جواب نہ آنے پر ایوان بالا میں تحریک استحقاق لانے کا فیصلہ، ہندو میرج بل2016 پر مزید غور اور ہندو برادری کے موقف جاننے کیلئے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ہندو ارکان کو کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں مدعو کر لیا گیا،چیئر پرسن کمیٹی سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ توہین رسالت قانون پر عمل درآمد کے طریقہ کار کو بہتر بنانے اور غلط استعمال روکنے کیلئے توہین رسالت کے حوالے سے 1992کی سینیٹ کمیٹی کی رپورٹ کی سفارشات کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔

(جاری ہے)

سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس جمعہ کو چیئر پرسن سینیٹر نسرین جلیل کی صدارت میں ہوا جس میں جیونل جسٹس سسٹم ترمیمی بل2016،ہندو میرج بل2016 ،کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد اور 300لا پتہ افراد کی آگاہی کے بارے میں حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات اور توہین رسالت قانون پر عمل درآمد کے طریقہ کار کے حوالے سے سفارشات پر غور ہوا۔

اجلاس میں سینیٹرزفرحت اللہ با بر،نثار محمد،جہانزیب جمالدینی، ثمینہ عابد ،ستارہ ایاز، مفتی عبد الستار،محسن لغاری، اعظم خان سواتی وفاقی وزیر کامران مائیکل چیئرمین انسانی حقوق کمیشن علی نواز چوہان،وزارت انسانی حقوق،وزارت قانون و انصاف کے ا علی افسران نے شرکت کی۔چیئر پرسن کمیٹی سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ ہم توہین رسالت قانون میں ہرگز ترمیم نہیں کر رہے صرف عمل درآمد کے طریقہ کار کو بہتر بنانے پر غور کر رہے ہیں۔

وفاقی وزیر کامران مائیکل نے کہا کہ توہین رسالت کے غلط الزامات لگانے والوں کے خلاف کاروائی نہیں ہوتی۔رمشا مسیح کیس اس کی مثال ہے۔اس کیس میں مقدس اوراق کی توہین کرنے والے اصل مجرموں کے خلاف کچھ نہیں ہوا۔سینیٹر مفتی عبد الستار نے کہا کہ توہین رسالت قانون کو نہ چھیڑا جائے۔سینیٹر فرحت اللہ بابرنے کہا کہ سینیٹ کی قانون و انصاف کمیٹی نی1992میں توہین رسالت قانون پر غور کیاتھا جسکے چیئرمین سینیٹر راجہ ظفر الحق تھے۔

ہم اس کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل بنا سکتے ہیں25سال قبل کمیٹی نے جو سفارشات دی تھیں نا معلوم وجوہات کی بنا ہ پر دب گئی تھیں۔کمیٹی نے توہین رسالت پر تین سوالات اٹھائے تھے جن میں تجویز کیا گیا تھا کہ سب سے پہلے توہین رسالت کی تعریف کی جائے ۔توہین رسالت مقدمات میں معافی کے تصور کا سوال بھی اٹھایا گیا تھا اور کمیٹی نے خصوصی سفارش کی تھی کہ دوسرے اسلامی ممالک میں توہین رسالت سے متعلق قوانین کو زیر غور لایا جائے اور ان ممالک سے رائے بھی طلب کی جائے۔

سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ عوام میں آگاہی بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ قانون کا غلط استعمال نہ ہو ۔سینیٹر نثار محمد نے کہا کہ انتہائی حساس معاملہ ہے باریک بینی سے جائزہ لینا چاہئے۔1992کی کمیٹی کے تین نکات کو اپنایا جائے۔آئین ا و راسلامی اقدار کو مدنظر رکھنا ہو گا ایک فرد یا ایک واقعہ کو سامنے رکھ کر قانون سازی میں احتیاط برتنی چاہئے۔

چیئرمین انسانی حقوق کمیشن علی نواز چوہان نے توہین رسالت قانون کے تحت درج تمام مقدمات کی تحقیقات اعلی پولیس افسر سے کرانے کی سفارش کی گئی اور توہین رسالت قانون میں معافی کی گنجائش پر غور کرنے کی تجویز دی گئی اور کہا کہ رسول اکرم ﷺنے اپنے دور میں توہین رسالت کرنے والوں کو معاف کیا تھا۔ چیئر پرسن کمیٹی سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ ہم توہین رسالت کے حوالے سے 1992کی سینیٹ کمیٹی کی رپورٹ کی سفارشات کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرینگے۔

وزارت کے حکام نے بتایاکہ تین صوبوں پنجاب،خیبر پختون خواہ اور بلوچستان نے ہندو میرج کے حوالے سے بل بنانے کاا ختیار وفاق کو دیاہے۔جبری مذہب کی تبدیلی کا بل سندھ اسمبلی نے منظور کیا ہے لیکن اس پر سندھ حکومت میں بھی اعتراض اٹھ رہا ہے ۔وزارت کے حکام نے آگاہ کیا کہ اقلیتی برادری کا کہنا ہے کہ بچیوں کو اغوا کر کے زبردستی اسلام قبول کرایا جا رہا ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کسی شہری کو اپنی مرضی سے مذہب تبدیلی پر قدغن نہیں لگا سکتے۔چیئر پرسن کمیٹی سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ بل میں ہندو مذہب سے متعلق شقیں شامل ہیں بل منظوری سے قبل سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ہندو ارکان کو بھی آئندہ کمیٹی اجلاس میں مدعو کرینگے۔سینیٹر نثار محمد نے کہا کہ سینیٹ کمیٹی کے اجلاس میں عمر کی حد 18سال میری تجویز پر شامل کی گئی تھی۔

آئین کی شق 20میں شہریوں کو مذہبی آزادی کا پورا حق اور تحفظ ہے۔انسانی حقوق کمیشن کے چیئرمین علی نواز چوہان نے کہا کہ مذہب کے معاملے میں زبردستی نہیں کی جا سکتی۔سینیٹر نثار محمد نے کہا کہ کوئی قانون مذہب اور آئین سے متصادم نہیں ہونا چاہئے۔سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ بل میں کئی سقم موجود ہیں اور کہا کہ منظور شدہ بل میں اگر نکاح رجسٹرار کے پاس پندرہ دنوں میں رجسٹر نہ ہو تو نکاح کی قانوی حیثیت کیا ہو گی۔

منظور شدہ بل میں درج نہیں۔سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ ہندو میرج بل میں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ہندو ارکان پا رلیمنٹ کو بھی شامل کیا جائے۔سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ سالہا سال رولز نہیں بنائے جاتے جس کی وجہ سے مسائل ہوتے ہیں۔سینیٹر ثمینہ عابد نے کہا کہ تمام مذاہب کا احترام ہونا چاہئے۔سینیٹر ستارہ ا یاز نے کہا کہ آئین میں درج انسانی حقوق کی ضمانت پر عمل ہونا چاہئے۔

جیونل جسٹس سسٹم ترمیمی بل2016کے بارے میں وزارت کے حکام نے آگاہ کیا کہ معاملہ قانونی اصلاحات کمیٹی میں ہے۔تمام صوبوں سے رابطے میں ہیں۔سپریم کورٹ کے حکم پر برطانیہ اور بھارت کے نظام کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔جیونل جسٹس سسٹم میںصرف مشترکہ سماعت کا مسئلہ ہے جسے حل کرنے کیلئے ویڈیو لنک کی بھی تجویز ہے۔کمیٹی کی طرف سے دی گئی سفارشات پر وزارت کے حکام نے آگاہ کیا کہ سفارشات وزارت داخلہ سے متعلقہ ہیں۔

وزارت داخلہ کو بھجوا دی گئی ہیں جواب کا انتظا رہے۔چیئرمین انسانی حقوق کمیشن علی نواز چوہان نے آگاہ کیا کہ کوئٹہ واقعہ پر تحقیقات جاری ہیں جلد جواب جمع کرائینگے۔لا پتہ افراد کے بارے میں آگاہ کیا گیا کہ وزارت داخلہ وزارت دفاع صوبائی وزارت داخلہ کو دو دفعہ خط لکھے گئے ہیں تیسری بار یاد دہانی کرائی گئی ہے جواب کا انتظار ہے ۔سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ کمیٹی کی سفارشات پر جواب آنا چاہئے تھا۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پہلی بار نہیں ہوا ایسا کئی بار ہو چکاکوئی جواب نہیں آتا۔سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ تعاون نہیں کیا جا رہاہے ۔تحریک استحقاق لائی جائے۔سینیٹر نثار محمد نے کہا کہ بلوچستان کے لا پتہ افراد پر بھی جواب نہیں آیا۔قواعد و ضوابط کے تحت چلنا چاہئے۔چیئر پرسن کمیٹی سینیٹر نسرین جلیل نے جواب نہ ملنے اور غیر سنجیدہ رویے کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کی طرف سے ایوان بالا میں تحریک استحقاق لا ئی جائیگی۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے قواعد و ضوابط کے تحت ساٹھ دنوں کے اندر جواب نہ آئے تو وجوہا ت سے آگاہی دی جاتی ہے۔وزارت حکام نے کہا کہ لا پتہ افراد کمیشن کے چیئرمین یا سیکرٹری کو اجلاس میں بلوایاجائے۔سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ قوانین کا مسودہ بنا کر دیا پھر بھی جواب نہیں آیا۔(ار)