انسانی حقوق کمیٹی ، 18سال کی عمرسے قبل زبردستی تبدیلی مذہب سے متعلق اقلیتوں کے تحفظ کابل مسترد

زبردستی مذہب کی تبدیلی اورشادی قانونی اوراخلاقی جرم ہے،اب تک18سال سے کم عمرمیں زبردستی تبدیلی مذہب کاکوئی معاملہ سامنے نہیں آیا،میرے حلقہ میں مسلم خاندان نے ہندو مذہب اختیار کرلیا،اس خاندان کوکھدائی پرکچھ مورتیاں ملیں،انھوں نے پوجاشروع کردی،اس خاندان کو تو کسی نے تبدیلی مذہب پرکچھ نہیں کہا،چیئرمین کمیٹی اسلام سب سے زیادہ روشن خیال مذہب ہے،کسی کے مذہب تبدیل کرنے پرپابندی نہیں لگائی جاسکتی،عالیہ کامران دورمختلف ہے، بچے کو بھی ہرمعاملے کا علم ہوتا ہے،آسیہ تنولی ، تبدیلی مذہب کیلئے عمرکی قدغن نہیں لگانی چاہئے،کرن حیدر

جمعہ 2 دسمبر 2016 16:08

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 02 دسمبر2016ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے 18سال کی عمرسے قبل زبردستی تبدیلی مذہب سے متعلق اقلیتوں کے تحفظ کابل 2016مسترد کر دیا، چیئرمین کمیٹی بابر نواز نے کہا کہ زبردستی مذہب کی تبدیلی اورشادی قانونی اوراخلاقی جرم ہے،اب تک18سال سے کم عمرمیں زبردستی تبدیلی مذہب کاکوئی معاملہ سامنے نہیں آیا،میرے حلقہ میں ایک مسلم خاندان نے ہندو مذہب اختیار کرلیا،اس خاندان کوکھدائی پرکچھ مورتیاں ملیں،انھوں نے پوجاشروع کردی،اس خاندان کو تو کسی نے تبدیلی مذہب پرکچھ نہیں کہا،عالیہ کامران نے کہا کہ اسلام الہامی مذاہب میں سب سے روشن خیال مذہب ہے،کسی کے مذہب تبدیل کرنے پرپابندی نہیں لگائی جاسکتی،آسیہ ناز تنولی نے کہا کہ آج کادورمختلف ہے بچے کو بھی ہرمعاملے کا علم ہوتا ہے، کرن حیدر نے کہا کہ آج کے دورمیں تبدیلی مذہب کیلئے عمرکی قدغن نہیں لگانی چاہئے، بل کی بھرپور مخالفت کرتی ہوں۔

(جاری ہے)

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس جمعہ کو چیئرمین بابرنواز کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا جس میں ممبران کمیٹی ، بل کے محرک سنجے پروانی اور وزارت انسانی حقوق کے حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں اقلیتوں کے تحفظ کے بل 2016 پر غور کیا گیا۔اقلیتی رکن قومی اسمبلی سنجے پروانی نے بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ بل 18 برس سے قبل تبدیلی مذہب پر پابندی سے متعلق ہے،سندھ اسمبلی ایساہی بل تمام جماعتوں کی حمایت سے منظورکرچکی ہے،زبردستی شادی پر بھی پابندی ہونی چاہئے،بل کومذہب کی بجائے انسانی حقوق کے معاملے کے طور پر دیکھا جائے، ایسی500سے زائدمعاملات ہوئے جس میں بچیوں کے زبر دستی مذہب تبدیل کرائے گئے لیکن زیادہ ترسامنے نہیں لائے جاسکے۔

چیئرمین کمیٹی بابر نواز نے کہا کہ زبردستی مذہب کی تبدیلی اورشادی قانونی اوراخلاقی جرم ہے،18ویں ترمیم کے بعد یہ صوبائی معاملہ ہے،اب تک18سال سے کم عمرمیں زبردستی تبدیلی مذہب کاکوئی معاملہ سامنے نہیں آیا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے تبدیلی مذہب کے معاملات بھی سامنے آئے ہیں،میرے حلقہ انتخاب میں ایک مسلم خاندان نے ہندو مذہب اختیار کرلیا،اس خاندان کوکھدائی پرکچھ مورتیاں ملیں،انھوں نے پوجاشروع کردی،اس خاندان کوکسی نے تبدیلی مذہب پرکچھ نہیں کہا۔

اقلیتی رکن اسمبلی سنجے پروانی نے کہا کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ سناہے کہ کوئی مسلمان ہندو ہواہے، میں ان لوگوں سے ملنا چاہوں گا۔۔ رکن کمیٹی عالیہ کامران نے کہا کہ آج 10برس کی بچی کوہرمعاملے اوراپنے برے بھلے کا پتہ ہوتا ہے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ یورپ میں آج حاملہ ہونیوالی90فیصدلڑکیاں16برس سے کم عمرہوتی ہیں۔صاحبزادہ یعقوب نے کہا کہ زبردستی مذہب کی تبدیلی کی کسی بھی عمرمیں اجازت نہیں ہونی چاہئے۔

ساجد نواز نے کہا کہ بل کابغورجائزہ لینے کے بعد کوئی رائے قائم کی جانی چاہیے۔ رکن کمیٹی عامر خان نے کہا کہ زبردستی تبدیلی مذہب کسی بھی عمرمیں جائزنہیں۔ عالیہ کامران نے کہا کہ اسلام الہامی مذاہب میں سب سے روشن خیال مذہب ہے،کسی کے مذہب تبدیل کرنے پرپابندی نہیں لگائی جاسکتی۔رکن کمیٹی آسیہ ناز تنولی نے کہا کہ آج کادورمختلف ہے بچے کو بھی ہرمعاملے کا علم ہوتا ہے۔کرن حیدر نے کہا کہ آج کے دورمیں تبدیلی مذہب کیلئے عمرکی قدغن نہیں لگانی چاہئے، بل کی بھرپور مخالفت کرتی ہوں۔کمیٹی نے 18 سال کی عمرسے قبل زبردستی تبدیلی مذہب سے متعلق اقلیتوں کے تحفظ کابل 2016مسترد کر دیا۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ارکان نے متفقہ طور پر بل کومستردکیاہے

متعلقہ عنوان :