سندھ اسمبلی، حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے درمیان ہنگامہ آرائی اور شورشرابہ

قائدحزب اختلاف اور وزیر بلدیات کے مابین سخت گرما گرمی دیکھنے میں آئی اور تلخ جملوں کا تبادلہ،ایک دوسرے پر چائنہ کٹنگ کے الزامات حکومت سندھ کراچی کے مئیر، ڈپٹی مئیر اور بلدیاتی کونسلوں کے چیئرمینوں کے اختیارات بھی اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے ،خواجہ اظہار الحسن کا اظہار خیال

پیر 28 نومبر 2016 18:50

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 نومبر2016ء) سندھ اسمبلی کے اجلاس میں پیر کو ایوان میں اس وقت خاصہ شور شرابہ ہواجب قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن نے حکومت سندھ کے ایک نوٹیفیکیشن کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہا کہ صوبائی حکومت نے کراچی کے باغات کا انتظام قومی اور کثیر القومی کمپنیوں کے ذریعے چلانے کا فیصلہ کرلیا ہے جو بلدیاتی اداروں کے معاملات میں صوبائی حکومت کی مداخلت اور ان کے اختیارات سلب کرنے کی کوشش کے مترادف ہے۔

اس موقع پرقائدحزب اختلاف اور وزیر بلدیات کے مابین سخت گرما گرمی دیکھنے میں آئی اور تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا اور دونوں جانب سے ایک دوسرے کی پارٹیوں پر چائنا کٹنگ میں ملوث ہونے کے بھی الزامات عائد کئے گئے اور ایوان میں شیم سیم کے نعرے بھی بلند ہوئے۔

(جاری ہے)

پیر کو ایوان کی کارروائی کا ایجنڈا مکمل ہونے کے بعد قائد حزب اختلا ف خواجہ اظہار الحسن نے اپنے ایک پوائنٹ آف آرڈر پر کہا کہ انہیں وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے جاری کردہ ایک نوٹیفیکیشن کی کا پی موصول ہوئی ہے جو 25اکتوبر 2016ء کو جاری کیا گیا تھا، اس میںکہا گیا ہے کہ کراچی میں باغات کا انتظام قومی اور کثیر القومی کمپنیاں چلائیں گی۔

خواجہ اظہار نے کہا کہ اتنا اہم فیصلہ کرنے سے قبل کے ایم سی اور ڈی ایم سیز کو اعتماد میں لئے بغیر کرلیا گیا جو نہ صرف بلدیاتی امور میں سندھ حکومت کی مداخلت ہے بلکہ یہاقدام ان کے اختیارات سلب کرنے کے بھی مترادف ہے۔قائد حزب اختلاف نے کہا کہ سندھ میں بلدیاتی ادارے تو 24اگست کو قائم ہوئے ہیں اس سے پہلے تو بلدیاتی اداروں کے اختیارات بھی سندھ حکومت کے پاس ہی تھے اس دوران باغات کی حالت سمیت دوسرے شہری مسائل کے حل کے سلسلے میں کون سی بہتری نظر آئی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ کو چاہیے تھا کہ وہ منتخب بلدیاتی ٹیم کو اپنا پارٹ اینڈ پارسل بناتی لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ وہ کراچی کے مئیر، ڈپٹی مئیر اور بلدیاتی کونسلوں کے چیئرمینوں کے اختیارات بھی اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے جس سے بلدیاتی اداروں میں احساس محرومی پیدا ہورہا ہے ۔ اس موقع پر وزیر بلدیات جام خان شورو نے صورتحال کی وضاھت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سندھ خصوصاًٍ وزارت بلدیات نے ہمیشہ بلدیاتی اداروں کے ساتھ اشتراک عمل کے ساتھ تمام امور سرانجام دینے کی کوشش کی ہے اس حوالے سے انہوں نے سالٹ ویسٹ منصوبہ کا بھی ذکر کیا جس پر بلدیاتی قیادت کو اعتماد میں لیا جارہا ہے۔

انہوں نے ایوان کو بتایا کہ باغات کی دیکھ بھال اور انتظام اپنے ذمہ لینے کے لئے حکومت سے مختلف کثیر القومی کمپنیاں اور این جی اوز رابطہ کرتی ہیں اگر کوئی بھی ملکی یا غیر ملکی ادارہ کسی تجارتی سرگرمی کے بغیر کسی پارک کا انتظام لینا چاہے تو اس میں اعتراض والی کیا بات ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی بہت سے پارکس این جی اوز کو دیئے گئے تھے کیونکہ ان کی حالت خراب تھی ۔

ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی سید سردار احمد نے کہا کہ پہلے سے یہ قانون موجود ہے کہ اگر کوئی کسی پارک کو ایڈاپ کرنا چاہے تو وہ کرسکتا ہے لیکن آپ تمام پارکس کا انتظام بلدیہ، ٹائون کمیٹیوں اور بلدیاتی اداروں سے لیکر دوسروں کو دیدیں اس کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ سید سردار احمد نے کہا کہ حکومت سندھ جس طرح بلدیاتی اداروں کے اختیارات لے رہی ہے وہ جمہوریت نہیں ہے اور ہم اس اقدام کے خلاف عدالت میں جائیں گے ۔

جس پر وزیر بلدیات جام خان شور و نے کہا کہ یہ جنرل پالیسی نہیں ہے ، اگر کوئی ادارہ یا این جی او کسی پارک کا انتظام چلانا چاہتی ہے تو اس پر اعتراض والی کیا بات ہے۔ جس پر خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ پارکوں کے لئے کروڑوں روپے کے فنڈز ہیں، پیپلز پارٹی کی حکومت نے گزشتہ چند سالوں کے دوران کراچی کے محترمہ بے نظیر بھٹو پارک کا کیا حشر کیا وہ بھی سب کے سامنے ہے یہ پارک برباد کردیا گیا جس پر جام خان شورو نے کہا کہ 2012میں تو تمام بلدیاتی ادارے اور پارک آپ کے پاس تھے اس وقت کیا ہوتا رہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اس دور میں تمام پارکس پر قبضہ ہوچکا تھا اور وہاں چائنا کٹنگ بھی ہوتی رہی اور یہ کام کس پارٹی نے کیا سب کو علم ہے ۔ اس موقع پر خواجہ اظہار الحسن اور وزیر بلدیات کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا اور ایوان کا ماحول خاصہ کشیدہ ہوگیا ۔ ایوان میں اس معاملے پر گرما گرمی جاری تھی کہ اسپیکر آغا سراج درانی اجلاس غیرمعینہ مدت کے لئے برخاست کرنے کا اعلان کردیا۔