پنجاب میں سٹریٹ کرائم 76فیصد بڑھ گئے، شہری ٹریفک اشاروں پر لٹ رہے ہیں:خرم نواز گنڈاپور

سانحہ ماڈل ٹائون کے باعث وزیراعلیٰ پنجاب آئی جی سے باز پرس نہیں کر سکتے پنجاب کے دونوں بڑے ایک دوسرے کی مجبوری اور ضرورت ہیں، سیکرٹری جنرل عوامی تحریک

ہفتہ 26 نومبر 2016 22:36

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 26 نومبر2016ء) پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے کہا ہے کہ آئی جی پنجاب کی تمام نااہلی کے باوجود اسے عہدے پر برقرار رکھنا میاں شہباز شریف کی مجبوری ہے کیونکہ موجودہ آئی جی پنجاب کی زیر نگرانی سانحہ ماڈل ٹائون ہوا اور وہ سانحہ ماڈل ٹائون کی ’’اے ٹو زی‘‘ کہانی کے چشم دید راوی اور گواہ ہیں۔

آئی جی پنجاب اور وزیراعلیٰ پنجاب دونوں ایک دوسرے کی مجبوری ہیں۔وہ گزشتہ روز مرکزی سیکرٹریٹ میں پارٹی اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے عوام، تاجر ،خواتین ڈاکوئوں کے ہاتھوں صبح و شام لٹیں، معصوم بچیوں کو بداخلاقی کے بعد قتل کر دیا جائے۔ خاندان دن دہاڑے ٹریفک کے اشاروں پر لٹیں، خونی ڈکیتیاں ہوں، 76 فیصد سٹریٹ کرائم بڑھ جائے۔

(جاری ہے)

خواتین سے بداخلاقی کے کیسز میں 33فیصد اضافہ ہو جائے۔ اغواء کے واقعات 56 فیصد بڑھ جائیں۔ گینگ ریپ کے کیسز 41فیصد بڑھ جائیں۔ باہمی ضرورتوں اور مجبوریوں کے جال میں جکڑے پنجاب کے دونوں بڑے ایک دوسرے کے خلاف لب کشائی نہیں کرینگے۔آئی جی پنجاب کی اس سے بڑی نااہلی کیا ہو گی کہ چھوٹو گینگ کو عجلت میں ختم کرنے کی کوشش میں انہوں نے غریب گھروں کے کئی اہلکار مروا لیے اور کوئی ذمہ داری فکس نہیں ہوسکی۔

انہوں نے کہا کہ 2013 ء میں مغلپورہ میں ایک معصوم بچی کو بداخلاقی کے بعدقتل کر دیا گیا اور اس کی لاش گنگا رام ہسپتال کے باہر پھینک دی گئی۔وزیراعلیٰ کی یقین دہانی کے باوجود 3 سال کے بعد بھی بچی کے سفاک اور درندے قاتل نہیں پکڑے جا سکے۔ خود پنجاب پولیس والے لاہور ہائیکورٹ کو رپورٹ دیتے ہیں کہ دہشت گردوں کے مقدمات میں ملوث انتہائی خطرناک 1002 ملزمان نہیں پکڑے جا سکے مگر کسی کے خلاف کارروائی کرنے کی کسی کو جرأت ہے نہ ضرورت۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب پولیس حکومتی سرپرستی میں بذات خود ایک خطرناک گینگ بن چکی ہے۔اس گینگ نے 17 جون 2014 کے دن 14 لوگوں کو دن دہاڑے قتل کیا۔ 80 کو گولیوں سے چھلنی کیا۔ دیدہ دلیری کے ساتھ کھلی قتل و غارت گری کا مقدمہ بھی مقتولین کے ورثاء کے خلاف درج کیا۔ پھر 10 اگست 2014 کے دن سے لیکر 30 اور 31 اگست کی درمیانی شب اسلام آباد ڈی چوک میں سیاسی کارکنوں کا شکار کھیلا۔

یکم نومبر 2016 ء کو پنجاب پولیس کے اسی گینگ نے ’’پنجاب کے بھائی‘‘ کے حکم پر منتخب وزیراعلیٰ اور ان کے قافلے پر رات بھر شیلنگ کی۔ منتخب وزیراعلیٰ کی تذلیل کی۔ کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔انہوں نے کہا کہ ادارے غلام بن چکے ہیں۔ وہ تنخواہ تو عوام کے ٹیکسوں سے لیتے ہیں مگر نوکری سلطنت شریفیہ کی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک سانحہ ماڈل ٹائون کے قاتل اور پانامہ کے کرپٹ کردار اقتدار میں ہیں پولیس سمیت ہر ادارہ ان کی غلامی میں رہے گا کیونکہ تقرر و تبادلے اور سزا جزا ان کے ہاتھ میں ہے۔ دیکھتے ہیں عوام کب تک ظلم کی چکی کے پاٹوں کے درمیان گہیوں کی طرح پستے ہیں۔