لاہور، اقلیتوں کے تحفظ کے نام پر منظور کیا گیا بل شریعت اسلامیہ کے منافی ہے

جماعت اہلسنّت کے مفتیان کرام کا اجتماعی شرعی اعلامیہ

ہفتہ 26 نومبر 2016 22:29

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 26 نومبر2016ء) جماعت اہلسنّت پاکستان کے مرکزی امیر صاحبزادہ سید مظہر سعید کاظمی اور مرکزی ناظم اعلی علامہ سید ریاض حسین شاہ کی اپیل پر جماعت اہلسنّت کے مفتیان کرام نے جاری کئے گئے اپنے اجتماعی شرعی اعلامیہ میں اقلیتوں کے تحفظ کے نام پر منظور کئے گئے بل کو شریعت اسلامیہ کے منافی قرار دے دیا۔ شرعی اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ جبری تبدیلی مذہب کو روکنے کے نام پر منظور کیا گیا بل خلاف قر آن ، خلاف اسلام اور خلاف شریعت ہے۔

جبری تبدیلی ء مذہب کے مشکوک واقعات کو بنیاد بنا کر اشاعت اسلام کا راستہ روکنے کیلئے غیر شرعی بل ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ہے۔یہ غیر شرعی بل فی الفور واپس لیا جائے۔ شرعی اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ سندھ اسمبلی کے بل میں 18سال سے کم عمر افراد کو قبول اسلام سے روکنا اور 18سال سے زائد عمر کے شخص کو 21روز تک قبول اسلام کے اعلان سے منع کرنا اسلامی تعلیمات و احکامات کے منافی ہے۔

(جاری ہے)

یہ درست ہے کہ قر آن کی رو سے کسی کو زبردستی مسلمان بنانا ہر گز جائز نہیں ہے اور اس پر پابندی درست ہے لیکن رضا و رغبت اسلام قبول کرنے پر پابندی لگاکر کسی کو دوسرے مذہب پر قائم رہنے پر مجبور کر نا قانون شریعت اسلامیہ اور عدل و انصاف کے تمام تقاضوں کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔ ہر عاقل اور بالغ شخص کو اختیار حاصل ہے کہ وہ جس مذہب کو اختیار کرنا چاہے کرلے۔

اس میں عمر کی کو ئی قید نہیں ہے۔ سندھ اسمبلی کے بل کی اکثر شقیں شریعت سے متصادم ہیں جن کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ جماعت اہلسنّت کے شرعی اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کا قانون امریکہ ، یورپ اور بھارت میں بھی نہیں ہے۔ حکمران اور ممبران اسمبلی مغربی آقائوں کو خوش کرنے کیلئے اپنی عاقبت خراب نہ کریں۔ ایسے قوانین کا مقصد اسلام کی ترویج و اشاعت کو روکنا ہے کیونکہ اس وقت اسلام واحد مذہب ہے جو دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔

مغربی ممالک اسلام کے تیزی سے فروغ پانے سے خائف ہیں۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ سندھ حکومت ہندو نوازی میں شرعی حدود و قیود کو پامال کرنے سے باز رہے۔ شرعی اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ سندھ حکومت اسلام قبول کرنے والوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی نہ کرے۔ اسلامی شریعت کی زد سے بچہ پندرہ سال کی عمر میں بلکہ بعض اوقات اس سے پہلے بھی بالغ ہو سکتا ہے۔

ایسی صورت میں جبکہ وہ بالغ ہو کر شرعی احکام کا مکلف ہو چکا ہے ، اسے قبو ل اسلام کرنے سے تین سال تک روکنا سرا سر ظلم اور بد ترین زبر دستی ہے۔ اس قسم کی زبردستی کا قانون غالباًً کسی سیکولر ملک میں بھی موجود نہیں ہوگا۔ نیز اٹھارہ سال کے بعد اسلام قبول کرنے کیلئے اکیس دن کی مہلت دینا ناقابل فہم ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب نہیںہے کہ اس مدت میں اسکے اہل خاندان اسے دھمکا کر اسلام لانے سے روکنے میں کامیاب ہو سکیں پھر سوال یہ ہے کہ اگر وہ میاں بیوی قانون کے مطابق اسلام لے آئیں تو کیا اس قانون کا یہ مطلب نہیں ہو گا کہ انکے بچے اٹھارہ سال کی عمر تک غیر مسلم ہی تصور کئے جائیں گے۔

کیونکہ اس عمر سے پہلے اسلام لانے می اجازت نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ قانون اس کے تمام مضرات پر غور کئے بغیر محض غیر مسلموں کو خوش کرنے کیلئے نافذ کیا گیا ہے۔ جن مفتیان کرام اور علماء نے شرعی اعلامیہ جاری کیا ہے ان میں علامہ پیر سید مظہرسعید کاظمی، علامہ سید ریاض حسین شاہ ، علامہ محمد اکرم شاہ جمالی، علامہ سید شمس الدین بخاری، مفتی محمد اقبال چشتی، سید شاہ عبد الحق قادری، مفتی محمد فضل جمیل رضوی، علامہ محمد اکرم سعیدی، علامہ بشیر القادری، علامہ حافظ فاروق خان سعیدی، مفتی لیاقت علی، علامہ سید غلام یسین شاہ ، علامہ خلیل الرحمن چشتی، علامہ قاضی محمد یعقوب رضوی، علامہ سید خضر حسین شاہ سیالوی، علامہ محب النبی طاہر، علامہ رفیق احمد شاہ جمالی، علامہ رضوان یوسف، مولانا محمد حنیف چشتی، علامہ محمد اشرف چشتی، علامہ منظور عالم ، علامہ حامد سرفراز، علامہ فیض بخش رضوی، علامہ شیر محمد نقشبندی، علامہ نذیر احمد قادری اور دیگر شامل ہیں۔

متعلقہ عنوان :