سیاست کی نظام عدل میں کوئی جگہ نہیں ، اس سے سسٹم میں خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں‘ چیف جسٹس لاہو رہائیکورٹ

روز اول سے اصلاحات ‘ احتساب کا عمل شروع کر دیا تھا،جن ججز کی شہرت پر سوالیہ نشان تھا انکے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی ‘ جسٹس منصور علی شاہ

ہفتہ 26 نومبر 2016 21:44

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 نومبر2016ء) چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ بار او ر بنچ ایک نظام کے پہیے ضرور ہیں لیکن انہیں اپنی اپنی حدود میں اپنا کردار ادا کرنا ہے اور اگر کوئی جزو اپنی حدود سے تجاوز کرے گا تو مسائل جنم لیتے ہیں،بار کونسلز کا کام وکلاء کے پیشہ وارانہ معاملات کو دیکھنا ہے، سیاست کی نظام عدل میں کوئی جگہ نہیں ہے اس سے سسٹم میں خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں، ہمارے عدالتی نظام میں بھی کمزوریا ں ہیں اگر عدالتیں قانون کے مطابق فیصلے کریں گی تو کرپشن کا ناسور جڑ سے ہی ختم ہو جائے گا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور کی ضلعی عدلیہ کی جانب سے عدالت عالیہ لاہور کی ایک سو پچاس سالہ تقریبات کے حوالے سے ’’ قانون کی حکمرانی‘‘کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے کیا ۔

(جاری ہے)

اس موقع پر مسٹر جسٹس محمد قاسم خان، مسٹر جسٹس مجاہد مستقیم احمد، مسٹر جسٹس طارق افتخار احمد، مسٹر جسٹس حبیب اللہ عامر، جسٹس (ر) فضل کریم، جسٹس (ر) اعجاز نثار، معروف قانون دان عابد حسن منٹو ، ایس ایم ظفر، رجسٹرار سید خورشید انور رضوی، ممبر انسپکشن ٹیم سردار طاہر صابراور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نذیر احمد گجانہ سمیت جوڈیشل افسران، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور وکلاء کی بڑی تعداد موجود تھی۔

چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ بار اور بنچ نظام عدل کے اہم اجزاء ہیں ان میں دوری نہیں ہونی چاہیے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے بطور چیف جسٹس روز اول سے اصلاحات اور احتساب کا عمل شروع کر دیا تھا۔ ایسے ججز جن کی شہرت پر سوالیہ نشان تھا ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی، جوڈیشل افسران کی کارکردگی رپورٹس کے فارمیٹ میں بہتری لانے کا عمل شروع کیا گیا، ضلعی عدلیہ کو فعال بنانے کیلئے اصلاحی عمل شروع کیا گیا اور جوڈیشل اکیڈمی کو جدید خطوط پر استوار کیا۔

فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ بطور چیف جسٹس میری یہ ذمہ داری ہے کہ مقدمات کے جلد از جلد فیصلے کئے جائیں، عدالتوں میں بروقت کام کو یقینی بنایا جائے، اس کے علاوہ میرا کوئی کا م نہیں ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ ضلعی عدلیہ نظام انصاف میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور مشکل حالات میں کام کرنے والے جوڈیشل افسران خصوصاًً خواتین ججز قابل تعریف ہیں۔

فاضل چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ضلعی عدلیہ اور لاہور ہائی کورٹ میں جدید ترین کمپیوٹرائزڈ آٹومیشن سسٹم لا یا جارہا ہے اور پاکستان میں پہلی بار لاہور میں اے ڈی آر سسٹم بھی لایا جا رہا ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت عالیہ کی ایک سو پچاس سالہ تقریبا صرف عدالت عالیہ لاہور کے جج صاحبان کی ہی نہیں، یہ تقریبات عدلیہ، وکلاء، ضلعی عدلیہ، عدالتی سٹاف اور پولیس سمیت تمام اداروں ، سول سوسائٹی اور صوبے بھر کی عوام کی ہیں۔

صوبے بھر کی تمام ضلعی عدالتوں میں منعقدہ تقریبات میں سول سوسائٹی، اساتذہ، طلبہ و طالبات اور بچوں نے بھر پور شرکت کی۔فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت عالیہ لاہور میں نئے ججز کی تعیناتی شفاف انداز میں ہوئی، صوبہ بھر سے موصول 280 ناموں کی سکروٹنی کی گئی اور تمام پیرامیٹرز پر پورا اترنے والے 14 ناموں کی سفارش کی گئی جو اب عدالت عالیہ لاہو رکا حصہ ہیں۔

فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ آج ہم سیاست کا شکار ہو گئے ہیں لیکن ہم بار ز کو دعوت دیتے ہیں کہ تمام معاملات بات چیت سے حل کریں اوراس نظام کی بقاء کی خاطر کام کریں۔ فاضل چیف جسٹس نے کانفرنس میں شرکت کرنے پر تمام شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا عابد حسن منٹو اور ایس ایم ظفر کی موجودگی تمام بارز کی موجودگی کے برابر ہے۔ قبل ازیں کانفرنس سے جسٹس (ر) فضل کریم، ایس ایم ظفر، عابد حسن منٹو، جگنو محسن، نذیر احمد گجانہ سمیت دیگر مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ سیشن کورٹس لاہور کی جانب سے فاضل چیف جسٹس ، ججز اور معزز مہمانوں کو شیلڈز بھی پیش کی گئیں۔

متعلقہ عنوان :