برطانوی پارلیمنٹ کا اعلان تقسیم ہند 1947؁ء اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادیں مسئلہ کشمیر کی بنیاد ہیں، سردار مسعود خان

اقوام متحدہ نے اپنی قرار دادوں پر عملدرآمد اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے موثر کردار ادا نہیں کیا ، صدر آزاد کشمیر کشمیری قوم تقسیم کشمیر کے خلاف ہیں ۔ وہ کسی صورت اپنی ریاست کے ٹکڑے کرنے کی کوششوں کو قبول نہیں کریں گے، سیمینار سے خطاب

ہفتہ 26 نومبر 2016 18:13

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 نومبر2016ء) صدر آزاد جموں و کشمیر سردار محمد مسعود خان نے کہا ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ کا اعلان تقسیم ہند 1947؁ء اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادیں مسئلہ کشمیر کی بنیاد ہیں۔ جن میں کشمیریوں کو حق خود ارا دیت دینے کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ اقوام متحدہ نے اپنی قرار دادوں پر عملدرآمد اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے موثر کردار ادا نہیں کیا ۔

آخری مرتبہ 1998 میں پاک بھارت ایٹمی دھماکوں کے بعد اقوام متحدہ کی ایک قرار داد میں مسئلہ کشمیر کا ذکر کیا گیا تھا ۔ امریکا اور برطانیہ کی مسئلہ کشمیر کے حل میں کوئی دلچسپی نہیں جب کہ روسی فیڈریشن اس سے پہلے بھارت کے قریب رہا ہے ۔ چینی بہت محتاط قوم ہے لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ چین مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کی حمایت نہیں کرتا ۔

(جاری ہے)

ایک طرح سے چینی بھی مسئلہ کشمیر کا ایک فریق ہے ۔ وہ مقبوضہ کشمیر کے کسی شہری کو بھارتی پاسپورٹ پر ویزا جاری نہیں کرتا ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے زیر اہتمام ’’ مسئلہ کشمیر اور خطے کی سیاسی اور جغرافیائی صورتحال‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ صدر سردار محمد مسعود خان نے کہا کہ بھارت نے 27 اکتوبر 1947؁ء کو کشمیر پر جابرانہ قبضہ کیا اور اس کے بعد سے اس کی تمام تر کوششیں اپنے قبضے کو دوام بخشنے کے لیے ہیں۔

کشمیر کے عوام بھارت سے آزادی چاہتے ہیں۔ 1947 میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام نے خود مسلح جدوجہد کے ذریعے آزادی حاصل کی ۔ جس میں خیبر پختونخوا کے عوام نے بھی ان کے ساتھ تعاون کیا ۔ اس وقت افواج پاکستان کا سربراہ ایک انگریز جنرل تھا ۔ جس نے قائداعظم کے حکم کے باوجود فوج کشمیر بھیجنے سے انکار کر دیا تھا ۔ صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ ہم شملہ معاہدے کے خلاف ہر گز نہیں ۔

آج تک پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ مذاکرات شملہ معاہدے کے تحت نہیں ہوئے ۔ یہ مذاکرات کبھی لاہور اکارڈ ، کبھی اگرہ سمٹ اور کبھی اوفا ملاقات کے نیتجے میں طے پائے ۔ پاکستان کی ماضی کی تمام حکومتوں نے نیک ارادے اور خلوص نیت سے مذاکرات کئے لیکن بھارت نے ہمیشہ عیاری اور مکاری سے کام لیا ۔ مسئلہ کشمیر کو اسرار کر کے مذاکرات کے ایجنڈے میں پہلے 8ویں اور پھر 10 ویں پر رکھا دیا ۔

بیک ڈور پالیسی اور آئوٹ اف باکس حل کی تجاویز کا بھی کوئی مثبت نتیجہ کبھی سامنے نہیں آیا ۔ دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی کمی ہے ۔ صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ پاکستان اور کشمیر کے درمیان خون کے رشتے ہیں ۔ اگر پاکستان نے خوانخواستہ کشمیر پر کبھی سمجھوتہ کر لیا تو پھر یہ سلسلے کبھی نہیں رکے گا ۔ اور بھارت پاکستان کا وجود ہی ختم کرنے کی کوشش کرے گا۔

آوٹ اف باکس یا ہندو دراوزوں کے پیچھے مسئلہ کشمیر کا کوئی بھی حل کشمیر قبول نہیںکریں گے ۔ سابق صدر پرویز مشرف نے اس حوالے سے کئی فارمولے پیش کئے تھے ۔ لیکن بھارت نے انہیں مسترد کر دیا تھا ۔ کشمیری قوم تقسیم کشمیر کے خلاف ہیں ۔ وہ کسی صورت اپنی ریاست کے ٹکڑے کرنے کی کوششوں کو قبول نہیں کریں گے ۔ پاکستان کو کسی صورت فریق ہونے کے ناطے مذاکرات شروع ہونے اور مسئلہ کے حل کے لیے فضا ساز گار ہونے سے پہلے فارمولے پیش کرنے اور رعایت دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ صدر آزاد کشمیر نے طویل خطاب کے اختتام پر سمینار کے شرکاء کی طرف سے دیئے گئے سوالات کے جوابات بھی دیئے ۔