مہنگائی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت میں اکتوبر 2015 کے دوران پست ترین سطح تک پہنچنے کے بعد اضافے کا رجحان ہے ،اسٹیٹ بینک

ہفتہ 26 نومبر 2016 16:53

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 نومبر2016ء) مہنگائی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت (CPI) میں اکتوبر 2015 کے دوران پست ترین سطح تک پہنچنے کے بعد اضافے کا رجحان ہے جس میں کبھی کبھار موسمی انحرافات آتے رہے ہیں۔ اس متوقع اضافے کی وضاحت اجناس کی قیمتوں میں قبل ازیں بہت کمی کے بعد استحکام، تیل کی قیمتوں کے دور ِثانی کے اثرات کے بتدریج خاتمے اور ملکی طلب میں کسی قدر اضافے سے ہوتی ہے۔

سال بسال مہنگائی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت اکتوبر 2015 میں 1.6 فیصد سے بڑھ کر اکتوبر 2016 میں 4.2 فیصد ہوگئی ہے۔ قوزی مہنگائی (core inflation) بھی تھوڑی تھوڑی بڑھ رہی ہے۔ ان حرکات کی جزوی طور پر عکاسی نومبر 2016 کے آئی بی اے ایس بی پی سروے سے بھی ہوتی ہے جس سے موجودہ اور متوقع معاشی حالات میں بہتری کے ساتھ صارفین کے اعتماد اور اگلے چھ ماہ کے لیے مہنگائی کی توقعات میں کسی قدر اضافے کا اظہار ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

قلیل مدت میں مہنگائی کا یہ قابل انتظام ماحول نمو کی موجودہ رفتار کے لیے اچھا شگون ہے۔ معینہ سرمایہ کاری میں نجی شعبے کے قرضے میں بھرپور اضافہ آئندہ نمو کو تقویت دے گا۔ نتیجے کے طور پر توقع ہے کہ مالی سال 17 میں بہتر مجموعی رسد بڑھتی ہوئی ملکی طلب کو بہتر طور پر پورا کرسکے گی۔ تاہم تیل کی بین الاقوامی قیمت مہنگائی کو متاثر کر سکتی ہے۔

موجودہ معاشی استحکام اور جدولی بینکوں سے حکومتی قرض کی خالص واپسی بازار ِزر میں سیالیت (liquidity) کے حالات میں قدرے آسانی پر منتج ہوئی۔ جب زیر ِگردش کرنسی کی نمو مالی سال 16 میں غیرمعمولی طور پر بڑھنے کے بعد اپنی ماضی کی سطح پر واپس آگئی تو بینک ڈپازٹس میں اضافے سے بھی کچھ مدد ملی۔ ستمبر 2016 کی زری پالیسی کے عرصے کے بعد بین البینک بازار میں تغیر پذیری کم رہی اور شبینہ بازار زر کا ریپو ریٹ پالیسی ریٹ کے قریب رہا۔

2016 میں عالمی نمو کا منظر نامہ ملاجلا ہے۔ اگرچہ امریکی معیشت کے لیے نمو کے امکانات مثبت ہیں تاہم امریکی فیڈرل ریزرو کی جانب سے شرح سود میں متوقع اضافے کی بنا پربین الاقوامی مالی منڈیوں اور عالمی تجارت کے حوالے سے غیریقینی کیفیت موجود ہے۔ تاہم گذشتہ تین برسوں کے دوران پاکستان نے مسلسل بیرونی بفرز اکٹھا کیے ہیں جس کی وجہ سے بیرونی غیریقینی کیفیات کے خلاف اس کی لچک بہتر ہوگئی ہے۔

اس کی عکاسی زر ِمبادلہ کے ذخائر کی موجودہ سطح سے ہوتی ہے جو چار ماہ سے زائد کی متوقع درآمدی ادائیگیوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان کی ریاستی درجہ بندی میں حالیہ بہتری کے ساتھ سرکاری رقوم کی آمد سے زر ِمبادلہ کے ذخائر قائم رہنے کی توقع ہے۔ تاہم مالی سال 17 کی بقیہ مدت میں غیرتجارتی رقوم کا غیریقینی ہونا جاری کھاتے پر بالخصوص اور بیرونی شعبے پر بالعموم اثر انداز ہوگا۔ مذکورہ بالا معاشی حالات کے پیش نظر اور تفصیلی سوچ بچار کے بعد زری پالیسی کمیٹی نے پالیسی ریٹ کو 5.75 فیصد کی سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

متعلقہ عنوان :