ماضی کے برعکس یہ عہد صرف تکنیکی طور پر تیز رفتار ہی نہیں اس دور میں نئے نظریات ،نئی حقیقتیں بھی جنم لے رہی ہیں، ممنون حسین

قومی مقاصد کے حصول کیلئے انھیں سمجھنا خود کو ہم آہنگ کرنا ناگزیر ہے، ہمیں ان عوامل کو سمجھنا ہوگا جن سے خطہ بدامنی کا شکار ،دہشت گردی کی وجہ سے تاریخ کی بدترین خونریزی سے متاثرہوا گزشتہ چند برسوں میں پاکستان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے جو قابل اطمینان ہے، اقتصادی راہداری سے خطہ ہی نہیں پوری دنیا فائدہ اٹھا سکے گی،صدر مملکت کا کارفاہ یونیورسٹی کے جلسہ تقسیم استاد سے خطاب

ہفتہ 26 نومبر 2016 13:57

ماضی کے برعکس یہ عہد صرف تکنیکی طور پر تیز رفتار ہی نہیں اس دور میں نئے ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 نومبر2016ء) صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے ماضی کے برعکس یہ عہد صرف تکنیکی طور پر تیز رفتار ہی نہیں بلکہ اس دور میں نئے نظریات اور نئی حقیقتیں بھی جنم لے رہی ہیں، قومی مقاصد کے حصول کیلئے انھیں سمجھنا اور ان سے خود کو ہم آہنگ کرنا ناگزیر ہے، ہمارے لئے یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ وہ کون سے عوامل تھے جن کی وجہ سے یہ خطہ بدامنی اور انتشار کا شکار ہوا، انتہا پسندی کو فروغ ملا اور دہشت گردی کی وجہ سے تاریخ کی بد ترین خونریزی ہوئی جس سے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورا خطہ متاثر ہوا،اقتصادی راہداری سے خطہ ہی نہیں پوری دنیا فائدہ اٹھا سکے گی۔

یہ بات انہوں نے رفاہ یونیورسٹی کے جلسہ تقسیم اسناد کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہی۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہمارے نوجوانوں کیلئے یہ جاننا بھی اہم ہے کہ عالمی سیاست کی بساط پر رٴْونما ہونیوالی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ، بین الاقوامی اقتصادی نظام کیا صورت اختیار کر رہا ہے تا کہ آنیوالے ادوار میں پیش آنیوالے چیلنجوں اور مواقع سے آگاہی حاصل کی جا سکے۔

صدرمملکت نے کہا کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے جو قابل اطمینان ہے۔ اس کے نتیجے میں ہمارے ہاں زندگی کے مختلف شعبوں کے ماہرین کی تعداد میں اضافہ ہو گا اور ہمارے بچے قومی ترقی کے عمل میں اپنا کردار بھرپور طور پر ادا کرسکیں گے۔صدرمملکت نے کہا کہ ہمارے نوجوان دنیا میں رٴْونما ہونیوالی تبدیلیوں اور ان کے تناظر میں خود کو قومی اور عالمی صورتحال سے مکمل طور پر باخبر رکھیں تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ مستقبل میں انہیں کیا ذمہ داریاں انجام دینی ہیں۔

دنیا میں تشکیل پانیوالے اس نظام اور اس کے نتیجے میں وجود میں آنے والی نئی صف بندیوں نے ہمارے اس خطے کو غیر معمولی اہمیت دے دی ہے۔ یہی عوامل تھے جن کے پیش نظرہماری قیادت نے بدلے ہوئے حالات میں پیدا ہونے والے امکانات سے فائدہ اٹھانے کیلئے ایک طویل المیعاد حکمت عملی کے تحت عظیم دوست چین کے تعاون سے اقتصادی راہداری کی تعمیر شروع کردی جس کا کام اب تکمیل کے مراحل میں ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس پر اب تجارتی قافلوں کی آمد و رفت بھی شروع ہو چکی ہے۔

یہ راہداری تاریخی شاہراہِ ریشم کی ایک طرح سے توسیع ہے جس سے یہ خطہ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا فائدہ اٹھا سکے گی۔ ترقی اور خوشحالی کے اس عظیم الشان منصوبے میں خطے کے تمام ممالک کوفراخ دلی سے شریک کرنے پر پاکستان اور چین کاکردار تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائیگا ۔صدرممنون حسین نے کہا کہ پاکستان کے استحکام اور خوشحالی کیلئے ہمارے نوجوان نئے علوم وفنون میں بھرپور مہارت حاصل کر کے آنیوالے دور کیلئے خود کو تیار کریں اور اپنے نظریات اور قومی مقاصد پر کوئی سمجھوتہ کئے بغیر نئے عالمی نظام سے خود کو ہم آہنگ کریں اور وطنِ عزیز ہی نہیں اس خطے کو بھی جنگ و جدل کے چنگل سے نکال کر ترقی اور استحکام کی شاہراہ پر گامزن کردیں۔

دنیا کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کے لیے تعلیم ضروری ہے لیکن تعلیم کے مقاصد پورے نہیں ہوسکتے اگر اس کا اخلاقی پہلو نظر انداز کر دیا جائے کیونکہ جو معاشرہ اخلاقی قدروں سے محروم ہوجائے اس میں بد عنوانی، چوربازاری اور شرفِ انسانی جیسی قدریں کمزور پڑ جاتی ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ رفاہ یونیورسٹی نے ’’حیات اور طرزحیات‘‘ کے عنوان سے تربیت کا ایک جامع پروگرام وضع کیا ہے۔

مجھے یقین ہے کہ یہ نصاب نئی نسل کی تربیت کے ضمن میں دوررس اثرات مرتب کرے گا۔اس سلسلے میں ؛ میں چاہوں گا کہ ہائرایجوکیشن کمیشن اس نصاب اور اس سلسلے میں ہونے والی پیش رفت اور اس کے نتائج کا جائزہ لے کر دیگر جامعات کو بھی اس تجربے میں شریک کرے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین پاکستان کی آبادی کا نصف یا اس سے کچھ زائد ہیں ۔ آبادی کا یہ تناسب ظاہر کرتا ہے کہ ہماری خواتین جب تک مرکزی دھارے میں شامل ہو کر خدمات انجام نہیں دیں گی ، قومی ترقی کے حصول کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔

اس لیے میں اپنی بچیوں کو ہمیشہ نصیحت کیا کرتا ہوں کہ وہ اپنے ذہنی رحجانات کے مطابق زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کریں اور اس مقصد کے لیے وہ دنیا کے اعلیٰ ترین اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے ضرور جائیں لیکن اس چمکتی دمکتی دنیا میں اپنی شناخت پر کبھی آنچ نہ آنے دیں ، ان کے پیش نظر ہمیشہ یہ حقیقت رہنی چاہیے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بیٹیاں ہیں جن کی اپنی نظریاتی اور ثقافتی شناخت ہے۔ یہ احتیاط اس لئے ضروری ہے کہ ملک سے باہر جانیوالے لوگ ، خاص طور پر نوجوان ملک کے سفیر کی حیثیت رکھتے ہیں اور اٴْن کے طرز عمل سے ہی ان کے ملک کی شناخت بنتی ہے۔ انہوں نے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ میں اسناد تقسیم کیں اور انہیں مبارک باد پیش کی۔