بین الاقوامی کانفرنس قومی سلامتی کے مفادات بمقابلہ عوامی مفادات منعقد کی جانی چاہیے ، نیشنل سکیورٹی مفادات اور عوام مفادات کے درمیان توازن قائم کرنے کے لئے آزادی رائے، اطلاعات تک رسائی کا حق اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے کام کرنے کے لئے مواقع میسر ہونے چاہئیں

پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹر فرحت اللہ بابر کا جوائنٹ سینیٹ اور کامن ویلتھ پارلیمانی ایسوسی ایشن کے سیمینار سے خطاب

جمعہ 25 نومبر 2016 21:00

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 25 نومبر2016ء) پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ ایک بین الاقوامی کانفرنس قومی سلامتی کے مفادات بمقابلہ عوامی مفادات منعقد کی جانی چاہیے ، نیشنل سکیورٹی مفادات اور عوام مفادات کے درمیان توازن قائم کرنے کے لئے آزادی رائے، اطلاعات تک رسائی کا حق اور سول سوسائٹی کی ؂تنظیموں کے کام کرنے کے لئے مواقع میسر ہونے چاہئیں۔

وہ جمعہ کو اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں جوائنٹ سینیٹ اور کامن ویلتھ پارلیمانی ایسوسی ایشن کے سیمینار سے خطاب کررہے تھے ۔اس سیمینار کا موضوع "بدلتی ہوئی جمہوریتوں میں شفافیت کے معیارات" تھا۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹ کے چیئرمین رضاربانی نے نیشنل کمانڈ اتھارٹی بل جمعرات کے روز سینیٹ کی ڈیفنس کمیٹی کو دوبارہ غوروخوص کے لئے واپس بھیج دیا اور اس سے ایک صحتمندانہ اور جامع گفتگو کی بنیاد ڈال دی گئی کہ عوامی فلاح و بہبو د اور حقوق کے لئے کس طرح کام کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی کے خدشات کا خیال بھی رکھا جائے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ قانون کی حکمرانی، شفافیت، احتساب اور عوامی نمائندگی اچھی گورننس کے ستون ہیں۔ احتساب کا فقدان، مقدس گائے کا تصور اور قانون کے سامنے غیرمساوی سلوک نے جمہوریت اداروں کو کمزور کیا ہے اور اس پر اعتماد کم ہوگیا ہے۔ اس لئے ایسے امور جیسا کہ عوامی نمائندگی، قانون کی کمزور حکمرانی اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے لئے کام کرنے کی گنجائش کم ہونا سب شفافیت سے منسلک ہیں۔

فرحت اللہ بابر نے شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے تجویز دی کہ اطلاعات تک رسائی کے اصولوں کی بنیاد زیادہ سے زیادہ باتوں کو افشا کرنا، اطلاعات باہم پہنچانا اور ساکھ والے نظام کے ذریعے ہی بااختیار لوگوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل کی جا سکتی ہے۔ آزادی اظہار اور اذادی تقریر کے بغیر شفافیت نہیں ہو سکتی۔ تاہم آزادی اظہار کو قومی سلامتی کی یکطرفہ اور مصنوعی تعریف کے ذریعے دبا دی جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب تو میڈیا نے بھی ازخود سنسرشپ لگا لی ہے جس کے لئے قومی سلامتی کو وجہ بتایا جاتا ہے۔ قومی سلامتی کی کوئی واضح تعریف نہیں کی جاتی۔ آزادی اظہار کو سائبر کرائمز کنٹرول کے قانون جو حال ہی میں بنایا گیا ہے سے خطرات لاحق ہیں۔ سائبر کرائمزقانون کے قانون کو آزادی اظہار کو دبانے کے لئے سوال کیا جا رہا ہے تاہم نئی ٹیکنالوجی کی ایجادات کی وجہ سے نئے قوانین بنانے کی ضرورت پڑی ہے لیکن اسے آزادی رائے کو دبانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سول سوسائٹی کی تنظیمیں عوامی مفادات اور حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرتی ہیں اور عوامی شراکت داری کا اصول اپناتی ہیں۔ آزادی رائے اور پرامن عوامی اجتماعات ایک طرف تو عوامی شمولیت میں اضافہ کرتی ہیں اور دوسری جانب یہ شفافیت پیدا کرتی ہیں۔ اگر سول سوسائٹی کی تنظیموں کے لئے مواقع کم کر دئیے گئے تو عوامی شمولیت اور شفافیت نہیں رہتی۔ انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے 2015ء کے جمہوریت کے عالمی دن کو سول سوسائٹی کے لئے مواقع کے طور پر منایاگیا۔ اگر جمہوریت عوامی شمولیت، مزید شفافیت اور احتساب سے تعبیر کی جاتی ہے تو سوس سوسائٹی کی تنظیموں کو زیادہ سے زیادہ جگہ اور مواقع دئیے جانے چاہئیں۔

متعلقہ عنوان :