سندھ میں 291 ٹیوب ویلز میں بڑی خرابی درست کرنے کی کوشش کی جائے گی ، سندھ اسمبلی میں وقفہ سوالات

بدھ 23 نومبر 2016 23:08

کراچی ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 نومبر2016ء) صوبائی وزیر برائے ماحولیاتی ترقی ڈاکٹر سکندر میندھرو نے کہا ہے کہ سندھ میں پانی کی قلت کے باعث زرعی اراضی سیم و تھور کا شکار ہو رہی ہے ۔ بدھ کو سندھ اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران انہوں نے کہا کہ سندھ میں ہر سال 23 فیصد زرعی زمین پانی نہ ملنے کے سبب کم ہو رہی ہے ا ور آئندہ 40 سا ل بعد سندھ میں زرعی زمین ہی ختم ہو جائے گی۔

اس موقع پر ایم کیو ایم کے رکن صوبائی اسمبلی سید سردار احمد نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ 1991ء کے معاہدے میں تھل کینال کا کوئی ذکر نہیں تھا ۔ ایک چیف انجینئر نے جنہوں نے کالا باغ ڈیم پر کتاب لکھی ہے اس میں بھی اس بات کی تصدیق کی گئی ہے۔ سردار احمد نے تجویز پیش کی کہ پانی سندھ کے لئے ایک اہم مسئلہ ہے ۔

(جاری ہے)

اس لیے ایوان میں اس ایشو پر بحث کے لیے ایک پورا دن مختص کیا جائے ۔

اسپیکر آغا سراج درانی نے سردار احمد کی تجویز کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ بہت اچھی بات ہے کیونکہ سندھ پوری معیشت کا دارومدار زراعت پر ہے اور پانی ہمارے لیے اہم معاملہ ہے تاہم یہ ضروری ہے کہ جب اس اہم ایشو پر ایوان میں بات کی جائے تو تمام ارکان موجود ہوں اور وہ دلچسپی کا مظاہرہ کریں ۔ ڈاکٹر سکندر میندھرو نے کہا کہ یہ ہماری روزی روٹی کا معاملہ ہے اور اس پر ہمیں کھل کر بات کرنی چاہئے ۔

ایم کیو ایم کے سردار احمد نے بتایا کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 1991 کے معاہدے کے آدھے حصے کو لوگوں کے علم میں لایا گیا اور آدھا حصہ چھپا کر رکھ دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے بڑی مشکل سے اس معاہدے کی کاپی حاصل کی اور قواعد کے مطابق معاہدے کے ہر صفحے پر فریقین کے دستخط ہوتے ہیں لیکن کچھ صفحات پر فریقین کے دستخط بھی نہیں ہیں اور محکمہ آب پاشی کے پاس بھی اس کی مکمل کاپی موجود نہیں ہے ۔

وزیر پارلیمانی امور نثار احمد کھوڑو نے کہاکہ ایسی تمام حرکتیں بدنیتی کی وجہ سے کی جاتی ہیں ۔ ایوان میں بدھ کو وقفہ سوالات کا تعلق محکمہ آب پاشی سے تھا اور ارکان کی جانب سے دریافت کیے گئے سوالوں کے جواب وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے صوبائی وزیر پارلیمانی نثار احمد کھوڑو نے دیئے ۔ مسلم لیگ (فنکشنل) کی رکن اسمبلی نصرت سحر عباسی کے ایک سوال کے جواب میں نثار احمد کھوڑو نے کہا کہ محکمہ آب پاشی سندھ میں خراب ٹیوب ویل کی مرمت اور انہیں صحیح طریقے سے چلانے کے لیے خصوصی اقدامات کر رہی ہے ۔

انہون نے بتایا کہ اس حوالے سے 2013-14 میں ایک اسکیم بنائی گئی تھی ، جو منظوری کے مرحلے میں ہے جیسے ہی اسکیم منظور ہوئی اس پر کام شروع کر دیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ جن 291 ٹیوب ویلز میں بڑی خرابی ہے ، انہیں درست کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ صوبائی وزیر نے بتایا کہ محکمہ آب پاشی کی جانب سے 40 مقامات پر دوبارہ بورنگ کرائی گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ خیرپور ایک زرخیز علاقہ ہے لیکن اس کے باوجود انڈر گراؤنڈ واٹر لیول کم ہونے کے باعث ٹیوب ویل لگائے گئے ہیں اور یہ سلسلہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شروع کیا گیا تھا ۔

اس موقع پر ایم کیو ایم کے رکن صوبائی اسمبلی سید سردار احمد نے کہ اکہ کسی زمانے میں ایک اسکارپ پروجیکٹ ہوا کرتا تھا ، جس کے تحت سندھ میں کینال کے ساتھ ساتھ ٹیوب ویل لگائے گئے تاکہ سیمو تھور کے مسئلے سے بچا جا سکا اب اسکارپ کا محکمہ ختم ہو چکا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ سندھ کے بجٹ میں ہر سال ٹیوب ویلز کے لیے بڑی رقم مختص کی جاتی ہے ۔ ایوان کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ وہ صحیح طریقے سے خرچ ہو رہی ہے یا نہیں ۔

متعلقہ عنوان :