احمد ندیم قاسمی شخصیت ساز اور عہد ساز انسا ن تھے‘ ڈاکٹر عبدالرزاق صابر

پیر 21 نومبر 2016 21:48

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 21 نومبر2016ء) احمد ندیم قاسمی شخصیت ساز اور عہد ساز انسا ن تھے۔ ان خیالات کا اظہارڈاکٹر عبد الرزاق صابر نے اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام احمد ندیم قاسمی صدی کی مناسبت سے منعقدہ ایک روزہ ’’احمد ندیم قاسمی‘‘ سیمینارمیں کیا۔ یہ ایک روزہ سیمینار چار اجلاسو ں پر مشتمل تھا۔ افتتاحی اجلاس میں چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو نے استقبالیہ و تعارف پیش کیا۔

سیمینار کے پہلے اجلاس میں امجد اسلام امجد کی تیار کردہ احمد ندیم قاسمی کی زندگی و خدمات کے حوالے سے ڈاکومنٹری پیش کی گئی۔ دوسرے اجلاس میں اکادمی کے سہ ماہی ادبیات کے خصوصی نمبر ’’احمد ندیم قاسمی نمبر‘‘ کی تقریب پذیرائی منعقد ہوئی۔

(جاری ہے)

صدارت ڈاکٹر عبد الرزاق صابرنے کی۔ ڈاکٹر نصر اللہ جان وزیراور عارف ضیاء نے سہ ماہی ’’ادبیات‘‘پر مضامین پیش کئے۔

تیسرے اجلاس میں احمد ندیم قاسمی فن اور شخصیت کے حوالے سے مضامین پیش کیے گئے جس کی صدارت ڈاکٹر نذیر تبسم نے کی۔ حفیظ خان اور مبین مرزانے احمد ندیم قاسمی کے حوالے سے مضامین پیش کئے۔ سیمینارکا چوتھا اجلاس پاکستانی زبانوں کے مشاعرہ پر مشتمل تھا۔ صدارت اکرم ذکی نے کی۔ اسلم تاثیراور ہدایت بلوچ مہمانانِ خصوصی تھے۔ موجود شعراء کرام نے کلام پیش کیا۔

نظامت محبوب ظفر اور علی یاسر نے کی۔ عبد الرزاق صابر نے کہا کہ احمد ندیم قاسمی انسان دوست اور پیار کرنے والی شخصیت تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ تو مناسب ہوگا کہ وہ ایک شخصیت نہیں شخصیت ساز اور عہد ساز انسان تھے۔ اکادمی کے سہ ماہی ادبیات کا خصوصی شمارہ ’’احمد ندیم قاسمی نمبر‘‘ ایک بے حد اہم کارنامہ ہے جن میں احمدندیم قاسمی کی علمی و ادبی زندگی کے تمام گوشوں کا خوبصورتی سے احاطہ کیا گیا ہے۔

یقیناً یہ ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے جس سے ہماری نئی نسل استفادہ کرے گی۔ ڈاکٹر نذیر تبسم نے کہا کہ احمد ندیم قاسمی پاکستان اور پاکستانیت سے بے پنا ہ محبت کرتے تھے۔ ان کی شخصیت میں متانت کے ساتھ ساتھ ضرافت کا عنصر تھا وہ انتہائی شگفتہ مزاج انسان تھے۔ وہ انسانیت اور انسانیت سے محبت کرنے والے تخلیق کار تھے۔ اُن کے قدم زمین اور تہذیب سے جڑئے ہوئے تھے۔

ایسے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو، چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان نے اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ احمد ندیم قاسمی ایک ہمہ جہت شخصیت تھے، آج ان کی صد سالہ تقاریب کے سلسلے میں ہم انہیں خراج ِ عقیدت پیش کررہے ہیں۔ اکادمی ادب کے فروغ اور بہتر معاشرے کے قیام کے سلسلے میں اسی طرح کی تقاریب منعقد کرتی رہے گی۔ احمد ندیم قاسمی نے نئی نسلوں کی ادبی تربیت کی۔

آج ملک کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے مختلف زبانوں کے دانشورانہیں خراجِ عقیدت پیش کیا، یہ ہمارے لئے اعزاز کی بات ہے۔ عارف ضیاء نے کہا کہ احمد ندیم قاسمی، اصناف نثر اور اصناف شعر دونوں میں کثیر الجہات تھے۔ انہوں نے شاعری، افسانہ، تنقید اور صحافت میں کارہائے نمایاں انجام دیے ۔ وہ تخلیقی شعور کے ساتھ ساتھ تنقیدی شعور کا بھی گہرا ادراک رکھتے تھے۔

مبین مرزانے کہا کہ احمد ندیم قاسمی نے ہمارے ادب کے کئی اصناف پر گہرے نقوش ثبت کیے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی ان محدودچند لوگوں میں سے تھے جنہوں نے کم و بیش تین نسلوں کی علمی ادبی آبیاری کی۔ وہ زندگی کے سچے اور گہرے تجربے والے شاعر تھے اور محبت کا تجربہ تو ان کے ہاں وسعت کے ساتھ موجود ہے۔ نصر اللہ جان وزیر نے کہا کہ احمد ندیم قاسمی ایک ہمہ جہت تخلیق کار تھے، ایسے ادیب وقت کی ضرورت ہوتے ہیں۔

انہوں نے حالات کے مطابق قلم کے ذریعے جہاد کیا۔ اکادمی کے تحت شائع ہونے والے ادبیات قاسمی نمبر اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک خوبصورت اور وقیع شمارہ ہے جس میں ملک بھر کی مختلف زبانوںکے تخلیق کاروں نے احمد ندیم قاسمی کے ساتھ تمام پہلوئوں کا خوبصورتی سے احاطہ کیا۔ چیئرمین اکادمی اس کیلئے مبارکباد کے مستحق ہیں۔ حفیظ خان نے کہا کہ احمد ندیم قاسمی نے پاکستانی دیہات کے ماحول اورفضا کو جس طرح پوٹریٹ کیا اُس کی مثال نہیں ملتی۔ ان کے ہاں غزل اور نظم میں بھی سلیقہ اور شعار ملتا ہے۔

متعلقہ عنوان :