سندھ کے قدیم تاریخی ورثے برہمن آباد (منصورہ) --ایک تاریخی ورثہ کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد

برہمن آبادپر نئے سرے سے تحقیق کی جائیں اور اس کی اصل اور مصدقہ تاریخ عوام کے سامنے لائی جائے، مقررین

پیر 21 نومبر 2016 17:28

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 نومبر2016ء) مہران ہیسٹرویکل اینڈ کلچرل ویلفیئر سوسائٹی اور پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے مشترکہ تعاون سے برہمن آباد(منصورہ) ایک تاریخی ورثہ کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد نیشنل میوزیم آف پاکستان کراچی میں کیاگیا۔ جس میں وطن عزیز کے نامور تاریخ دانوں،محققین دانشوروں ، ادیبوں ، کالم نگاروںاور صحافیوں کے ساتھ ساتھ کراچی یونیورسٹی اور اردو یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات نے شرکت کی ۔

مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کی چودہ سو برس پرانی دارالحکومت رہنے والے برہمن آباد کی تہذیب کو بچانے کے لیئے سیمینارمنعقد کیا گیا ، 18ویں ترمیم کے بعد آثار قدیمہ کی حفاظت صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے مگر صوبائی حکومت نے بھی آثار قدیمہ کی حفاظت اور تحقیق کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے برہمن آباد(منصورہ) ایک تاریخی ورثہ ہے جو مکمل طور پر تباہ ہوچکاہے اب ضرور ت اس امر کی ہیکہ حکومت سندھ محکمہ ثقافت اور آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ ملکر اس تاریخی ورثے کیلئے عملی و موثر اقدامات کئے جائیں ۔

(جاری ہے)

مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی اداروں کی لاپرواہی کی وجہ سے سمٹ کر چند کلو میٹر ہی رہ گئے ہیں جس میں بدستور باقیات کی چوری اور قبضہ مافیا کی وجہ سے کمی واقع ہورہی ہے۔ تمام شرکاء سیمینار نے حکومت سے پرزور مطالبہ کیا کہ برہمن آباد پر نئے سرے سے تحقیق کی جائیں اور اس کی اصل اور مصدقہ تاریخ عوام کے سامنے لائی جائے اور برہمن آباد کو قومی ورثہ قرار دیتے ہوئے اس کے محل و قوع کو قبضہ مافیا سے واگزار کرایا جائے اور اس تاریخی ورثے کی مستقل بنیادوں پر حفاظت کا انتظام کیا جائے۔

ماہرین آثار قدیمہ ڈاکٹر در محمد پٹھان ، ڈاکٹرحنیف لغاری ،ڈاکٹر الطاف اصیم،عبدالحلیم شرر، پروفیسر محمد خان پنہور،پروفیسر ممتاز بھٹو اور سیمینار کے منتظمین کی طرف سے آچر خاصخیلی نے خیالات کا اظہار کیا سینئر کالم نگاروں میں شبیر سومرو،وارث رضا، ماجد صدیقی، حمیرا اطہر، شبیر ارمان، ایم جے گوہرو دیگر نے شرکت کی ۔نامور تاریخ دان ڈاکٹر الطاف اصیم نے نظامت کے فرائض انجام دئے ۔

سیمینار کے اختتام پر قراد داد پیش کی گئی جس میں وزیر اعلی سندھ سے اپیل کی گئی کہ قدیم ورثے کو بچانے کیلئے ، برہمن آباد (منصورہ) کی حفاظت اور تحقیق کیلئے دانشوروں ، محققین ،تاریخ دانوں اور ادیبوں کو ساتھ لے کر ایک لائحہ عمل تیا ر کیا جائے ۔سندھ کی تاریخی شہر برہمن آباد کی تحقیق کے ساتھ دیگر تاریخی مقامات پر تحقیق کرنے کے لیئے اعلیٰ سطحی سیمینار منعقد کروایا جائے، برہمن آباد جس کا رقبہ بارہ کلومیٹر پر تھا جہاں پر اب صرف چند ایکڑ پر بچا ہے، قبضے خالی کراکر تمام آثارقدیمہ کی زمین محکمہ آثارقدیم کو سپرد کردی جائے، برہمن آباد کی تاریخ بچانے کے لیئے، چاروں طرف دیوار دی جائے تاکہ ان کو محفوظ کرسکیں۔

زبون حالی کا شکار ہونے والے میوزیم کو نئے سرے سے بناکر تمام نوادرات ان میں رکھی جائیں۔ ضلعی انتظامیہ جس کی نااہلی سے قبضے ہورہے ہیں ان کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے تاکہ پھر سے ایسی کوئی حرکت نہ کرسکے۔ محکمہ آثار قدیمہ کو چاہیئے کہ وہ تمام اضلاع میں تاریخدانوں، آثارقدیمہ کے ماہرین پر مشتمل کمیٹیاں بنائی جائیں۔ تاریخ اور ثقافت کے لیئے پانچ سال کے اندر بتیس سے زیادہ تقریبات کرنے والی تنظیم مہران ہسٹاریکل اینڈ کلچرل ویلفیئر سوسائٹی کے لیئے سالانہ گرانٹ منظور کی جائے تاکہ تقریبات کے لیئے آسانی ہو سکے۔

مورخ و محقق عبداللہ خان وریا کے نام سے منسوب ایوارڈ ماہرین آثار قدیمہ ڈاکٹر در محمد پٹھان ، ڈاکٹرحنیف لغاری، سینئر کالم نگار یعقوب غزنوی،وارث رضا، ماجد صدیقی کو دیئے گئے ۔

متعلقہ عنوان :