دنیا پوسٹ اینٹی بائیوٹک ایرا کی جانب بڑھ رہی ہے ،ماہرین صحت

عام انفیکشنز اور زخم جو سالہا سال سے اینٹی بائیوٹک سے ٹھیک ہوجاتے تھے اب ٹھیک نہیں ہو پارہے ہزاروں افراد اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں،عوام اینٹی بایوٹکس کا استعمال صرف ڈاکٹری نسخے کے مطابق کریں،پریس کانفرنس

جمعرات 17 نومبر 2016 20:00

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 نومبر2016ء) دنیا بھر میں اینٹی بائیوٹک ادویات کا غلط استعمال بڑھتا جارہا ہے جس سے جراثیم نے ان ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا کر لی ہے۔ اینٹی مائیکروبائیل ریزسٹنٹ انفیکشنز دنیا بھر میں 2050 تک 300 ملین افراد کی جان لے لیں گے۔ ان خیالات کا اظہار ماہرین صحت نے اینٹی بائیوٹک ادویات کی آگہی کے عالمی ہفتے کی مناسبت سے پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا۔

شفا انٹرنیشنل ہسپتال کے چیف پیڈریاٹیشن ڈاکٹر اعجاز خان نے بتایا کہ اینٹی بائیوٹک ادویات سب سے زیادہ تجویز کی جاتی ہیں لیکن اکثروبیشتر غیر موزوں اینٹی بائیوٹک تجویز کر دی جاتی ہیں یا اس وقت تجویز کی جاتی ہیں جب ان کی ضرورت نہیں ہوتی اور اس کے لیے غلط وقت اور غلط ڈوز کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے بتایا کہ اینٹی بائیوٹک کو اینٹی مائیکروبائیل ڈرگس بھی کہا جاتا ہے جو انسانوں اور جانوروں میں بیکٹیریا سے پیدا ہونے والے انفیکشنز کے خلاف لڑتی ہیں۔

ون ہیلتھ ایکسپرٹ اور نیشنل ایگریکلچرل ریسرچ کائو نسل کے پروفیسر خالد نعیم خواجہ نے کہا کہ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جانوروں کو بھی خوراک کے ساتھ اینٹی بائیوٹک عام طور پر دی جاتی ہے جس سے ان کی بیماریوں کو روکنے کے ساتھ ان سے حاصل ہونے والی خوراک میں بھی اضافہ کیا جاتا ہے۔ انہی جانوروں کا گوشت کھانے سے بھی انسانی جسم کے جراثیم اینٹی بائیوٹک کے خلاف مزاحمت پیدا کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دنیا ایک ایسے دور (پوسٹ اینٹی بائیوٹک ایرا) کی جانب بڑھ رہی ہے جس میں ایسے عام انفیکشنز اور زخم جو سالہا سال سے اینٹی بائیوٹک سے ٹھیک ہوجاتے تھے اب ٹھیک نہیں ہو پارہے اور اس سے ہزاروں افراد اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 7 لاکھ افراد اینٹی مائیکروبائیل ریزسٹنٹ کی باعث ہلاک ہوجاتے ہیںانہوںنے کہا کہ اینٹی بائیوٹک ادویات کی وہ قسم ہے جو بیکٹیریا کو ختم اور اسکی نشونما کو روکتی ہے اور وائرس پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔

اینٹی بائیوٹک ریزسٹنٹ دراصل بیکٹیریا کی وہ صلاحیت ہے جس سے وہ بائیوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا کر لیتا ہے اور اس کے اثر کو زائل کر دیتا ہے جس سے اینٹی بائیوٹک بیکٹیریا اور انفیکشن کے خلاف موثر نہیں رہتی۔شفا انٹرنیشنل ہسپتال کے سینئر مائکروبایو لوجسٹ ڈاکٹر عثمان نے کہا کہ مزاحمت پیدا کر لینے کے بعد بیکٹیریا مذید طاقت ور ہو جاتا ہے وہ نہ صرف زندہ رہتا ہے اس میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ یہ ایک سے دوسرے شخص میں منتقل بھی ہوتا رہتا ہے انہوں نے کہا کہ یہ انسانی صحت کے لئے بڑے خطرات میں سے ایک گرد انا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اینٹی مائیکروبائیل ریزسٹنٹ انفیکشنز کی مینیجمنٹ پر اب تک 100 ٹریلین لگائے جا چکے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں اس کے استعمال میں 36 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ 2050 تک جانوروں میں اس کا استعمال 70 فیصد تک بڑھ جائے گا۔ انہوں نے مذید کہا کہ ان ادویات کا بے دریغ اور غلط استعمال اس کے اثر کو زائل کر دیتا ہے۔ اس سے بچنے کے لئے غیر موزوں استعمال کو روکنا ہوگا بالخصوص بچوں کو روکنا ہوگا کیونکہ انہیں بہت زیادہ ادویات دی جاتی ہیں۔

انہوںنے کہا کہ پاکستان میں غیر ضروری تجویز کء جانے والی اینٹی بائیوٹک کی شرح 88.9 فیصد ہے جب یہ دوا ناکام ہو جاتی ہے تو بیماری بڑھ جاتی ہے بار بار اسپتال جانا پڑتا ہے اور مہنگی اور ٹاکسک اینٹی بائیوٹک کی ضرورت پڑتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے عام آپریشن جن کے لئے اینٹی بائیوٹک کی ضرورت پڑتی تھی اب دشوار ہو جائیں گے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ مزاحمت روکنے کے لئے ضروری ہے کہ مستند ڈاکٹر کی تجویز کے بغیر اینٹی بائیوٹک نہ استعمال کی جائیں دواادھوری نہ چھوڑی جائے نسخہ مکمل کیا جائے ۔

متعلقہ عنوان :