آزاد عدلیہ کی تحریک میں حصہ لینے والے وکلاء کو اور سلام ہے ‘سید منصور علی شاہ

تمام اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنے معاملات آپس میں بیٹھ کر حل کریں اس ملک کی بہتری کیلئے کام کریں ہمارا مقصد بلا کسی خوف و خطر اور دبائوکے بغیر انصاف مہیا کرنا، دکھی سائلین کی تکالیف کو کم کرنا،سنگاپور میں فوجداری مقدمہ کو دوہفتوں اور اپیلوں کو زیادہ سے زیادہ ایک مہینے میں نمٹا دیا جاتا ہے،بار سے درخواست کرتا ہوں کہ ہمارے ساتھ تعاون کریں اور لوگوں کے مقدمات کو جلد نمٹانے میں ہماری مدد کریں‘چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کاخطاب

پیر 14 نومبر 2016 22:54

راولپنڈی /لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 نومبر2016ء) چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ نے کہا کہ آزاد عدلیہ کی تحریک میں حصہ لینے والے وکلاء کو اور سلام ہے ، تمام اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنے معاملات آپس میں بیٹھ کر حل کریں اس ملک کی بہتری کیلئے کام کریں،ہمارا مقصد بلا کسی خوف و خطر اور دبائوکے بغیر انصاف مہیا کرنا، دکھی سائلین کی تکالیف کو کم کرنا،سنگاپور میں فوجداری مقدمہ کو دوہفتوں اور اپیلوں کو زیادہ سے زیادہ ایک مہینے میں نمٹا دیا جاتا ہے،بار سے درخواست کرتا ہوں کہ ہمارے ساتھ تعاون کریں اور لوگوں کے مقدمات کو جلد نمٹانے میں ہماری مدد کریں، یہ ڈیڑھ سو سال صرف ہم ججز کے نہیں ہیں بلکہ یہ ڈیڑھ سو سال عدالت عالیہ لاہور اور اس سے منسلک ہر فرد اور ادارے کے ہیں،اس ادارے کے بغیر ہم کچھ نہیں ہیں یہ ادارہ ہے تو ہم ہیں اور اگر یہ ادارہ کمزور ہوا تو ہماری بھی کوئی حیثیت نہیں رہے گی، اس لئے ہمیں اس ادارے کی سربلندی اور وقار کیلئے کوشاں رہنا ہوگا۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہا کہ یہ ایک سو پچاس سالہ تقریبات فاضل ریٹائرڈ ججز کی ہیں اور ہمیں خوشی ہے کہ وہ آج ہمارے ساتھ موجود ہیں، ریٹائرڈ ججز ہمارے لئے ایک درس گاہ کا درجہ رکھتے ہیں، جو ادارہ اپنے بزرگوں کی عزت کرنا جانتا وہ ادارہ مضبوط ہوتا ہے۔ا ن خیالات کا اظہارچیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے راولپنڈی میں ہائی کورٹ کی 150سالہ تقریبات کے حوالے سے منعقدہ ایک سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پر جسٹس شاہد حمید ڈار ،جسٹس مظہر اقبال ،جسٹس محمد امیر بھٹی ،جسٹس شاہد عباسی،جسٹس ملک شہزاد احمد خان،جسٹس عباد الرحمن لودھی ،جسٹس علی باقی نجفی ، جسٹس عاطرمحمود ، جسٹس محمد طارق عباسی ،جسٹس خالد محمود ملک ،جسٹس مرزا وقاص داود، جسٹس سردار احمدنعیم ، جسٹس راجہ شاہد محمود عباسی کے علاوہ ، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز، بار ایسوسی ایشنز کے عہدیدراوں، سابق سینئر ججز، وکلا ، سول سوسائٹی کے نمائندوں، انتظامیہ کے افسران اور دیگر اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی۔

چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہاکہ ہمارے سابقہ ججز دلیری سے فیصلے کرتے تھے اور انکی دلیری و بے باکی ہمیں وراثت میں ملی ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ اس ادارے میں ضلعی عدلیہ کا بھی حصہ ہے اور ایک سو پچاس سالہ تقریبات میں ضلعی عدلیہ بھی ہمارے شانہ بشانہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جوڈیشل افسران میرے فرنٹ لائن ججز ہیں جو بغیر کسی خوف بے باکی سے فیصلے کرتے ہیں اور مجھے اپنے جوڈیشل افسران پر فخر ہے۔

چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ بار عدالت عالیہ لاہور کا ایک بہت اہم جزو ہے ، بار کے بغیر نا صرف یہ تقریبات بلکہ یہ ادارہ ہی مکمل نہیں ہے۔ جو وکلاء حضرات اس پروگرام میں موجود ہیں ہم ان کا تہہ دل سے شکریہ اد ا کرتے ہیں۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کی انتظامیہ کے بغیر بھی یہ تقریبات نا مکمل ہیں۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ آج کے دن عدالت عالیہ کے افسران اور ملازمین بھی مبارکبار کے مستحق ہیں جن کے پچھلے چھ سال کے الائونسز کا معاملہ حل ہو گیا ہے۔

حکومت سے باہمی گفت وشنید کے ذریعے اس معاملے کے حل عدالیہ اور انتظامیہ کے مابین بہترین رابطے کی اعلیٰ مثال ہے۔ تمام اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے معاملات آپس میں بیٹھ کر حل کریں اور اس ملک کی بہتری کیلئے کام کریں۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ آ ج اس پروگرام میں ہر ادارے کی نمائندگی موجود ہے جس پر وہ سب کے شکرگزار ہیں۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ایک مضبوط بار ہماری رہنمائی کیلئے موجود ہے، جس نے آئین و قانون کی بالادستی کیلئے جدوجہد کی، ہم سلام پیش کرتے ہیں آزاد عدلیہ کی تحریک میں حصہ لینے والے غیور وکلاء کو اور سلام ہے ان افراد کو جنہو ں نے اس 150 سالہ تقریبات میں اپنا حصہ ڈالا اور تمام لوگ آج ہمارے درمیان موجود ہیں۔

فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ سب سے پہلے ادارہ ہے، اس سے اوپر کوئی نہیں ہے، اگر آگے چلنا ہے تو بات چیت سے اپنے اختلافات کو ختم کرنا ہوگا، آج ہم جس موڑ پر کھڑے ہیں وہاں پچھلے 150 سالوں کی جانب دیکھنے کے ساتھ ساتھ ہمیں مستقبل کے 150 سالوں کی بھی منصوبہ بندی کرنی ہے، ہمارا مقصد اور کاروبار صرف ایک ہیبلا کسی خوف و خطر اور بغیر کسی دبائو، انصاف مہیا کرنا، دکھی سائلین کی تکالیف کو کم کرنا۔

فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ سنگاپور میں فوجداری مقدمہ کو دوہفتوں اور اپیلوں کو زیادہ سے زیادہ ایک مہینے میں نمٹا دیا جاتا ہے۔ انہوں نے بار سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ساتھ تعاون کریں اور لوگوں کے مقدمات کو جلد نمٹانے میں ہماری مدد کریں، کون سی ایسی ٹیکنالوجی کا مسئلہ ہے کہ کسی بھی مقدمے کا جلد فیصلہ نہیں ہو سکتا۔فاضل چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدالت عالیہ مین نئے آنے والے ججز کے ساتھ کوئی ذاتی تعلق نہیں ہے، صرف ان کے ڈیٹا اور پورٹ فولیو کی بنیاد پر انہیں جانتا ہوں، انہوں نے کہا کہ میرا اللہ اور میرے ججز جانتے ہیں کہ سارا عمل ایک شفاف انداز میں پورا ہوا ہے اور ہم نے پرانے انداز کی بجائے میرٹ اور شفافیت کو ترجیح دی ہے، انہوں نے کہا کہ آپس کے معاملات کو پس پشت ڈال کر گفت و شنید سے معاملات کو حل کریں اور آگے بڑھیں اور انصاف کی سربلندی کیلئے کام کریں۔

فاضل چیف جسٹس نے مزید کہا کہ وہ آج کو سپر مون کو پنڈی بنچ کے نام کرتے ہیں۔ قبل ازیں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سینئر ترین جج جسٹس شاہد حمید ڈار کا کہنا تھا کہ عدالت عالیہ لاہور کی ایک سو پچاس سالہ تقریبات عدالیہ عالیہ کے شایان شان منائی جارہی ہیں جس سے ناصرف چیف جسٹس بلکہ تمام جج صاحبان بہت خوش ہیں اور ایسی تقریبات کی عدالت عالیہ کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان اشتراوصاف نے اظہار خیال کے دوران کہاکہ وقت آگیا ہے کہ مروجہ طریقہ کار سے باہر نکل کر مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ای لائبریریز اور ای فائلنگ پر زور دیا جس سے آسانی میسر آئے گی۔ انہوں نے تقریبات کو درست سمت میں اہم قدم قرار دیا۔ راولپنڈی بار کے سینئر رکن شیخ ضمیر حسین ایڈووکیٹ نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کا مقام پورے برصغیر میں نمایاں رہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ لائبریری میں جج صاحبان کی سوانح عمری اورجوڈیشری کے بارے میں جدید کتب رکھی جائیں۔ ضلعی عدلیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راولپنڈی بہادر علی خان نے کہا کہ راولپنڈی کو عدلیہ کے حوالے سے تاریخی مقام حاصل ہے جہاں منصف کا دفتر قائم ہوا اور ایم اے صوفی راولپنڈی میں پہلے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج مقرر ہوئے ۔ انہوں نے کہاکہ راولپنڈی ضلع سات سب ڈویژنز پر مشتمل ہے اور یہاں ضلعی جوڈیشل کمپلکس کی شاندار عمارت تعمیر کی گئی ہے۔

متعلقہ عنوان :