عراقی فوج نے تاریخی شہر نمرود دولتِ اسلامیہ کے قبضے سے واپس لے لیا

شہر کی عمارتوں پر عراقی پرچم دوبارہ لہرا دیا گیا ، دولت اسلامیہ کو جانی اور مالی نقصان پہنچانے کا بھی دعویٰ

اتوار 13 نومبر 2016 22:10

بغداد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 13 نومبر2016ء) عراقی فوج نے کہا ہے کہ اس نے تاریخی شہر نمرود سے نام نہاد دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کو باہر دھکیل دیا ہے اور شہر پر دو سال بعد دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ دولت اسلامیہ نے مارچ 2015 میں تیرہویں صدی قبل مسیح سے قائم شہر نمرود پر قبضہ کیا تھا۔ سرکاری حکام اور تاریخ دانوں نے تنظیم کو اس کو یہاں موجود آثارِ قدیمہ کے مقامات کو نقصان پہنچانے پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

اقوام متحدہ کی تنظیم یونیسکو نے آثارِ قدیمہ کی اس تباہی کو جنگی جرائم قرار دیا تھا۔دولتِ اسلامیہ کا کہنا ہے کہ مزار اور بت ’جھوٹے خدا‘ ہیں اور ان کی تباہی ضروری ہے۔نمرود عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل سے 20 میل دور جنوب مشرق میں واقع ہے۔

(جاری ہے)

عراقی افواج نے حال ہی میں موصل سے دولت اسلامیہ کا قبضہ چھڑانے کے لیے ایک زبردست فوجی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔

عراقی فوج نے ایک بیان میں کہا ہے کہ نویں آرمرڈ ڈویڑن سے تعلق رکھنے والے دستوں نے نمرود کو مکمل طور پر آزاد کرا لیا ہے اور شہر کی عمارتوں پر عراقی پرچم دوبارہ لہرا دیا ہے۔ بیان میں دولت اسلامیہ کو جانی اور مالی نقصان پہنچانے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔درایں اثنا انسانی حقوق کے کارکنوں نے الزام لگایا ہے کہ کرد فوجیوں نے دولت اسلامیہ کے زیر قبضہ رہنے والے 20 دیہات اور قصبوں میں سنی عربوں کے گھروں کا گرا دیا ہے۔

دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ کچھ سنی عرب دیہات کو مکمل طور پر نست و نابود کر دیا گیا ہے۔ کردوں کی مقامی حکومت کے ایک نائب وزیر دیندار زیباری نے اس امر کی تردید کی ہے کہ اس بارے میں کوئی پالیسی بنائی گئی تھی یا کوئی ہدایات دی گئی تھی۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ کرد علاقے میں تقریباً بیس لاکھ سنی عرب سکون سے رہ رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ تباہ شدہ علاقے کے چند لوگ یا تو داعش کی حمایت کر رہے تھے یا اس کے رکن بن چکے تھے۔ انھوں نے کہا کہ گھروں کو پہنچنے والا نقصان یا تو فضائی بمباری کا نتیجہ ہے یا پھر اس بارودی مواد کے پھٹنے سے ہوا ہے جو شدت پسند وہاں سے روانگی کے وقت وہاں نصب کر گئے تھے۔

متعلقہ عنوان :