چار سال میں غیر ملکی قرضے ایک سو دس ارب ڈالر، سود بائیس ارب ڈالر ہو گا،آئی ایم ایف سے پرہیز کیلئے برامدات بڑھانا واحد آپشن ہے،برامدی شعبہ کی بحالی کے فیصلہ پر عمل دارمد میں تاخیر نہ کی جائے

اسلام آباد چیمبر آف سمال ٹریڈرز کے سرپرست شاہد رشید بٹ کا بیان

اتوار 13 نومبر 2016 20:10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 13 نومبر2016ء) اسلام آباد چیمبر آف سمال ٹریڈرز کے سرپرست شاہد رشید بٹ نے کہا ہے کہ بین الاقدامی منڈی سے پاکستان کے پیر اکھڑ رہے ہیں اسلئے ٹیکسٹائل سیکٹر کی بحالی کے فیصلہ پر عمل دارمد میں تاخیر نہ کی جائے۔ برامدات مسلسل گر رہی ہیں، درامدات بڑھ رہی ہیں جبکہ ماہرین کے مطابق چار سال میں غیر ملکی قرضے ایک سو دس ارب تک پہنچ جائیں گے جنکا سود بائیس ارب ڈالر ہو گا۔

اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے برامدات بڑھانا ضروری ہو گیا ہے ورنہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینا پڑے گا۔ شاہد رشید بٹ نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے ٹیکسٹائل شعبے کی بحالی کے لئے دو سو ارب روپے کے پیکج کا فیصلہ خوش آئند ہے مگر اس میں تاخیر نہ کی جائے۔

(جاری ہے)

اس پیکچ کے نتیجے میں ٹیکسٹائل سیکٹر کے بہت سے مسائل حل ہو جائینگے اس لئے اعلیٰ حکام فوری طور پراس پیکچ کی تفصیلات طے کریںتاکہ عمل درآمد کیا جا سکے۔

شاہد رشید بٹ نے ایک بیان میں کہا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے جو سب سے زیادہ زرمبادلہ اور پینتیس لاکھ افرادکو روزگار فراہم کر رہا ہے مگر مختلف مسائل ہ کی وجہ سے اس شعبے کی کارکردگی اور برآمدات بری طرح متاثر ہوئی ہیں جبکہ بین الاقوامی منڈی میں حریف ممالک پاکستانی مصنوعات کو پچھاڑ رہے ہیں۔ اس صورتحال میںاس اہم شعبے کی ترقی اور اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کیلیئے یہ پیکج انتہائی ضروری ہے جبکہ ٹیکسٹائل کے علاوہ دیگر برامدی صنعتوں کوبحال کرنے کا فیصلہ بھی انتہائی خوش آئند ہے ۔

کپاس اور ٹیکسٹائل کی برآمد سے سالانہ بارہ ارب ڈالر تک کمائے جاتے ہیں جبکہ اس شعبے کا حصہ جی ڈی پی میں 8.5 فیصد ہے اس لئے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کپاس کی فصل کی تباہی کی وجوہات میں غیر معیاری بیجوں کا استعمال، بے وقت کی بارشیں،بعض علاقوں میں خشک سالی، مداخل کی قیمتوں میں پندرہ سے بیس فیصد اضافہ، جعلی زرعی ادویات کی بھرمار اور بین الاقوامی منڈی کے منفی حالات شامل ہیں جس سے کاشتکاروں کی دلچسپی اور زیر کاشت رقبہ کم ہو گیا جس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔

متعلقہ عنوان :