لسبیلہ ، درگاہ شاہ نورانی میں دھماکہ،بچوں اور خواتین سمیت 30افراد جاں بحق، 100سے زائد زخمی ،ہلاکتوںمیں اضافے کا خدشہ ،صدر اور وزیراعظم کی دھماکے کی مذمت ،جانی نقصان پر اظہار افسوس

دھماکے کے بعد تمام ہسپتالوںمیں ایمرجنسی نافذ ، پولیس اور لیویز کے اہلکار موقع پر پہنچ گئے ، علاقے کو گھیرے میں لے لیا،دھماکے کے وقت 500کے قریب افراد موجود تھے ،حکام دھماکہ اتنا زور دار تھا کہ مزار کے احاطے میں ہر طرف انسانی اعضاء اور خون بکھر گیا،عینی شاہد موبائل فون سروس نہ ہونے کی وجہ سے ریسکیو اہلکاروں کو وائر لیس کے ذریعے اطلاع کی گئی ، امدادی کاموں میں تاخیر ہو نے سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں

ہفتہ 12 نومبر 2016 23:04

حب/اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 12 نومبر2016ء) بلوچستان کے ضلع لسبیلا میں درگاہ شاہ نورانی پر زور دار دھماکے کے نتیجے میںبچوں اور خواتین سمیت30 افراد جاں بحق اور100 سے زائد زخمی ہوگئے ،دھماکے کے بعد زخمیوں کو قریبی ہسپتالوں میں منتقل کرنے کیلئے امدادی کاروائیاں شروع کردی گئیں جبکہ تمام ہسپتالوںمیں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ، بیشتر افراد کی حالت تشویشناک ہونے سے ہلاکتوںمیں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہاہے،دھماکے کے بعد پولیس اور لیویز کے اہلکار موقع پر پہنچ گئے اور علاقے کو گھیرے میں لے لیا، موبائل فون سروس نہ ہونے کی وجہ سے ریسکیو اہلکاروں کو وائر لیس کے ذریعے اطلاع کی گئی جس کی وجہ سے امدادی کاموں میں تاخیر ہو نے سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔

(جاری ہے)

تفصیلات کے مطابق ہفتہ کوبلوچستان کے ضلع لسبیلا میں درگاہ شاہ نورانی پر اس وقت زور دار دھماکہ ہوا جب مغرب کے وقت دھمال جاری تھی اور کثیر تعداد میں زائرین آئے ہوئے تھے۔دھماکے کے نتیجے میں 30 افراد جاں بحق اور100سے زائد زخمی ہوگئے ریسکیو ٹیمیں جائے حادثہ پر پہنچ گئی ہیں اور زخمیوں کو سول ہسپتال حب منتقل کرنے کا عمل شروع کردیا گیا ۔اندھیرے کے باعث امدادی سرگرمیوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دربار پر مغرب کے وقت دھمال کے دوران دھماکہ ہوا ہے جس میں بڑی تعداد میں لوگوں کی ہلاکت کا خدشہ ہے کیونکہ مزار کے احاطے میں لاشیں ہی لاشیں بکھری پڑی ہیں۔درگاہ شاہ نورانی کے گدی نشین خلیفہ غلام حسین کا کہنا ہے کہ موبائل فون سروس نہ ہونے کی وجہ سے ریسکیو اہلکاروں کو وائر لیس کے ذریعے اطلاع کی گئی جس کی وجہ سے امدادی کاموں میں تاخیر ہوئی اور کئی قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔

شاہ نورانی کا دربار کراچی شہر سے 200 کلومیٹر دور بلوچستان کے پہاڑی علاقے میں واقع ہے جہاں قریب قریب کوئی ہسپتال موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے زخمیوں کو کراچی لایا جائے گا۔ اس سلسلے میں ایدھی فانڈیشن کے چیئرمین فیصل ایدھی ایمبولنسوں کا بڑا قافلہ لے کر کراچی سے روانہ ہوچکے ہیں۔ ایدھی حکام کا کہنا ہے کہ دھماکہ مغرب کے وقت دھمال کے دوران ہوا ہے اور عام طور پر اس وقت 500 کے قریب لوگ موجود ہوتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق درگاہ شاہ نورانی پر سیکورٹی کے کوئی انتظامات نہیں تھے جبکہ دھماکہ خود کش تھا یابم نصب کیا گیاتھا اس حوالے سے سیکورٹی ادارے تحقیقات کررہے ہیں ۔صوبائی وزیر داخلہ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ رات کے وقت اندھیرا ہونے کے باعث ہیلی کاپٹر استعمال نہیں ہوسکتا لیکن پرائیویٹ اور سرکاری گاڑیوں میں زخمیوں کو خضدار، لسبیلہ اور کراچی کے ہسپتالوں میں منتقل کیا جارہاہے ۔

انہوں نے کہاکہ جاںبحق ہونیوالوں میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں ۔دوسری جانب صدر مملکت ممنون حسین اور وزیراعظم محمد نوازشریف نے شاہ نورانی درگاہ دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور امدادی سرگرمیوں کو مزیدتیز کرنے کی ہدایت کی ۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ زخمیوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کی جائیں ۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی درگاہ شاہ نورانی میں دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے زخمیوں کو بہترین طبی سہولتیں فراہم کرنے کی ہدایت کردی ۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد معسوم شہریوں کے خون کے پیاسے ہیں ، دہشت گردوں کے خلاف متحد ہو کر لڑنا ہوگا۔