سانحہ سول اسپتال سے متعلق تحقیقاتی کمیشن کا واقعہ کے ماسٹرمائنڈ کی گرفتاری سے متعلق جواب نہ ملنے پراظہار برہمی

بیان ،تردید اور پھر بیان سب کنفیوژن پھیلارہے ہیں، کمیشن کی کارروائی سبوتاژکرنیکی کوشش کی جارہی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کمیشن پرسیاست نہیں چلنے دینگے ،وضاحت نہ دی گئی تو وزیراعلیٰ کو طلب کریں گے،سربراہ تحقیقاتی کمیشن

ہفتہ 12 نومبر 2016 19:16

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 نومبر2016ء) سانحہ سول اسپتال سے متعلق تحقیقاتی کمیشن نے واقعہ کے ماسٹرمائنڈ کی گرفتاری سے متعلق جواب نہ ملنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان ،اٴْن کے ترجمان اورآئی جی پولیس سب علیحدہ باتیں کررہے ہیں، بیان ،تردید اور پھر بیان سب کنفیوژن پھیلارہے ہیں، کمیشن کی کارروائی سبوتاژکرنیکی کوشش کی جارہی ہے لیکن کمیشن پرسیاست نہیں چلنے دینگے ،وضاحت نہ دی گئی تو وزیراعلیٰ کو طلب کریں گے،کمیشن کی سماعت سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائزعیسی ٰ نے کی۔

(جاری ہے)

سماعت کے دوران انکوائری جج ٰ نے واقعہ کے ماسٹر مائنڈ کی گرفتاری سے متعلق جواب نہ ملنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان ،اٴْن کے ترجمان اورآئی جی پولیس سب علیحدہ باتیں کررہے ہیں،وزیراعلیٰ کچھ کہتے ہیں اور ڈی آئی جی کوئٹہ کچھ اور کہہ رہے ہیں ، بیان ،تردید اور پھر بیان سب کنفیوژن پھیلارہے ہیں، کمیشن کی کارروائی سبوتاژکرنیکی کوشش کی جارہی ہے لیکن کمیشن پرسیاست نہیں چلنے دینگے، وضاحت نہ دی گئی تو وزیراعلیٰ کو طلب کریں گے ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ وزیر اعلیٰ کہاں ہیں جب تک وزیراعلیٰ خودنہیں بتائیں گے یہ کنفیوژن دورنہیں ہوگی، آئی جی پولیس سے پوچھا جائے وزیر اعلی ٰکہاں ہیں،انہیں سی ایم کے موومنٹ کاپتا ہوتا ہے، 20 منٹ میں واضح جواب نہ آیا تو وزیر اعلیٰ کوطلب کیا جائے گا، جس پر اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل نے وزیراعلیٰ کے بیان سے متعلق کمیشن سے تیس منٹ کا وقت مانگ لیا ، کمیشن نے ہدایت کی کہ تیس منٹ تک تحریری طورپر جواب جمع کروایا جائے ، جس کے بعد کمیشن میں ماسٹرمائنڈکی گرفتاری سے متعلق وزیراعلیٰ کا بیان سنایاگیا، جس میں نواب ثناء اللہ زہری نے واقعہ کے ماسڑمائنڈ کی گرفتاری سے متعلق دعوی کیا تھا ، ڈی آئی کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ نے کمیشن کو بتایا کہ بیان سے متعلق کوئی معلومات وزیراعلیٰ کونہیں دی ،نہ ہی کوئی گرفتاری کی ہے، ساجدترین ایڈووکیٹ نے ڈی آئی جی سے سوال کیا کہ وزیراعلیٰ اوراٴْنکے ترجمان کابیان ملزمان کوفائدہ پہنچاسکتا ہی توانہوں نے جواب دیا کہ میں وزیراعلیٰ کے بیان کی ذمہ داری یاتبصرہ نہیں کرسکتا ، اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل نے انکوائری جج سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اور حکومت نے اب تک کوئی گرفتاری نہیں کی ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اس بیان کے بعد آپ مزید کنفیوژن پھیلا رہے ہیں، اگر یہ ہی صورتحال رہی تو رپورٹ میں لکھوں گا، جس کے بعد جج نے ،ڈاکٹرز،وکلا،صوبائی حکومت اور دیگر افراد کا کمیشن سے تعاون کرنے پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اب عام عوام کے بیانات ریکارڈ نہیں ہوں گے، کمیشن نے کوئٹہ میں کارروائی کا عمل مکمل کرلیا ، دوسرے مرحلے میں اسلام آباد میں پنجاپ فرانزک لیبارٹری ایجنسی کے ماہرین اور پشاور بم ڈسپوزل اسکوارڈ کے بیانات قلمبند کیے جائیں گے ، جس کے بعد کمیشن کی کارورائی ملتوی کردی گئی۔

۔