بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ، اراکین صوبائی اسمبلی کو اراکین پارلیمان کی طرز پر بلیو پاسپورٹ کے اجراء کے مطالبہ پر سپیکرنے کمیٹی تشکیل دیدی

ہفتہ 12 نومبر 2016 17:13

بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ، اراکین صوبائی اسمبلی کو اراکین پارلیمان ..
کوئٹہ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 نومبر2016ء) بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ہفتہ کو سپیکر ب راحیلہ حمید خان درانی کی صدارت میں منعقد ہوا۔اجلاس میں اراکین اسمبلی کو بلیو پاسپورٹ کے اجراء سے متعلق مشترکہ قرار داد وزیراعلیٰ کے مشیر سردار رضا محمد بڑیچ نے ایوان میں پیش کی جس میں کہا گیا ہے کہ اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹرز کوپانچ سال کے لئے بلیو(سرکاری )پاسپورٹ جاری کیا جاتا ہے جبکہ صوبائی اسمبلی کے اراکین اس سہولت سے محروم ہیں، عوامی نمائندگان کی حیثیت سے یہ ان کا بنیادی حق ہے تاکہ بین الاقوامی ا دوروں کے لئے ویزوں کا اجراء ترجیحی بنیادوں پر ممکن ہوسکے قرار داد میں صوبائی حکومت سے سفارش کی گئی کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ بلوچستان اسمبلی کے اراکین کو سرکاری پاسپورٹ جاری کرنے کے لئے عملی اقدامات یقینی بنائیں ۔

(جاری ہے)

پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرے نے مشترکہ قرارداد پر اظہارکرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی قرار دادیں ہم پہلے بھی منظور کرچکے ہیںبلکہ بلیو پاسپورٹ کے حوالے سے آئینی قرار داد بھی منظور کی جاچکی ہے ۔ارکان اسمبلی کو اکثر بیرون ملک دوروں پر جانا پڑتا ہے بلیو پاسپورٹ ان کا استحقاق ہے جو ملنا چاہئے۔ مسلم لیگ(ق) کی ڈاکٹر رقیہ ہاشمی نے کہا کہ ارکان پارلیمان کی طرح ہمیں بھی تمام مراعات دی جائیں ۔

سابق سپیکر میر جان محمد جمالی نے اورعوامی نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی انجینئرزمرک خان نے بھی اس قرارداد کی حمایت کی ۔ مسلم لیگ(ق) کے رکن میر عبدالکریم نوشیروانی نے تجویز دی کہ اس مسئلے پر ایوان کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے ۔ صوبائی وزیر شیخ جعفرخان مندوخیل نے کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بلیو پاسپورٹ سے ہمیں ویزوں کے حصول میں فائدہ پہنچتا ہے ۔

جے یوآئی کے حاجی گل محمد دمڑ نے کہا کہ ہمارے قرار دادوں پر عملدرآمد کے حوالے سے ایک کمیٹی بنائی جائے تو اچھا ہے ۔چیئرمین پی اے سی عبدالمجیدخان اچکزئی نے اتحادی جماعتوں پرمشتمل ایک کمیٹی بنانے کی تجویز دی ۔سردار عبدالرحمان کھیتران نے عبدالمجیدخان کی تجویز کی تائید کی ۔ ۔صوبائی وزیر نواب ایاز خان جوگیزئی نے کہا کہ وہ قومی اسمبلی اور سینٹ کے رکن رہے ہیں اور ان کے پاس بلیو پاسپورٹ ہے اراکین صوبائی اسمبلی کا بھی حق ہے یہ قرار داد نہ صرف منظور کی جائے بلکہ اس پر عملدرآمد کرایا جائے۔

سابق سپیکر میر جان محمد جمالی نے ایوان کو بتایا کہ باقی صوبوں سے بھی اس سلسلے میں قرار دادیں پاس ہوئی ہیں، ایک کمیٹی تشکیل دی جائے اور قانون و پارلیمانی امور کا صوبائی محکمہ اس پر غور کرے۔اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے قرار داد کی حمایت کی اورکہاکہ ہمیں ہرچیز کو احساس محرومی کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے قانون اور آئین کے مطابق اس مسئلے کو حل ہونا چاہئے ،صرف بلوچستان اسمبلی ہی نہیں باقی صوبوں کے اراکین صوبائی اسمبلی کو بھی آفیشل پاسپورٹ نہیں ملا، اس موقع پر قرار داد کے محرک سردار رضا محمد بڑیچ نے قرار داد میں ترمیم لانے سے متعلق ایوان میں تحریک پیش کرنے کی کوشش کی تاہم سپیکر نے انہیں روکتے ہوئے کہا کہ منظوری کے بعد وہ تحریک لاسکتے ہیں صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ حکومت کی طرف سے ہم اس قرار داد کی حمایت کرتے ہیں مگر اس میں فیملی اور شریک حیات کے لفظ کے اضافے کی ترمیم ہونی چاہئے ۔

سپیکر نے ارکان اسمبلی کو بلیو پاسپورٹ کے اجراء کے لئے تمام پارلیمانی لیڈروں پر مشتمل کمیٹی کے قیام کی رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ اس کی سربراہی وزیراعلیٰ یا ان کے نامزد کردہ رکن کرے ۔ صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال اورڈاکٹر رقیہ ہاشمی کی ایک اور مشترکہ قرار داد ڈاکٹر رقیہ ہاشمی نے پیش کی جس میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان اسمبلی کے اراکین اکثریت جو کہ صوبے کے دور دراز علاقوں سے منتخب ہوکر آتی ہے موزوں رہائشی سہولیات نہ ہونے کے سبب انہیں رہائشی مشکلات درپیش ہیں، اسی طرح وزراء کے لئے بھی باقاعدہ رہائشی سہولیات مہیا نہیں کی گئی ہیں ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ اراکین اسمبلی کے لئے پارلیمنٹ لاجز کی طرز پر ایم پی اے لاجز اور وزراء کے لئے کالونی کی تعمیر کے لئے عملی اقدامات اٹھائے ۔

سپیکر نے رائے شماری کے بعد قرار داد کو منظور کرنے کی رولنگ دی ۔اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ انہیں اے جی آفس سے ایک لیٹر جاری ہوا ہے جس میں ایک مرتبہ پھر نئی اور غیر ضروری شرائط عائد کردی گئی ہیں جس کے باعث گزشتہ تین مہینوں سے ارکان اسمبلی کے سرکاری محافظ تنخواہوں سے محروم ہیں۔نصراللہ زیرے نے کہا کہ ہم اپنی جیبوں سے اپنے سیکورٹی گارڈ ز کو تنخواہیں دینے پر مجبور ہیں ۔

رقیہ سعید ہاشمی نے کہا کہ ہمارے سیکورٹی گارڈز کو تنخواہیں فنانس کی جانب سے ملتی رہی ہیں اب بتایا جائے کہ اس میں اے جی آفس کا کیا رول بنتا ہے۔ انجینئرزمرک خان اچکزئی نے کہا کہ ہم باربار تصدیق کرتے رہے ہیں کہ یہ سیکورٹی گارڈز ہمارے ساتھ ہیں اس سے بڑھ کر انہیں اور کیا تصدیق چاہئے یہ کوئی طریقہ نہیں ہے جو اپنایا گیا ہے رکن اسمبلی ایک ذمہ دار شخص ہوتا ہے وہ جب تصدیق کرتا ہے کہ یہ میرے پاس ہے توپھر مزید تصدیق کی کیا ضرورت ہے ۔

نیشنل پارٹی کی خاتون رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر شمع اسحاق نے کہا کہ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے ، کئی مہینوں سے ان کی تنخواہیں بند کی گئی ہیں۔ صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال نے حکومت کی طرف سے ایوان کو اس مسئلے کے حل کی یقین دہانی کرائی ۔انہوں نے کہا کہ اے جی آفس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے خزانے سے یہ تنخواہیں محکمہ داخلہ کو ڈرا ہوتی ہیں ہم دوسرا نوٹیفکیشن جاری کردیں گے اور ان کی تنخواہیں بھی جاری ہوجائیں گی ۔

میر عبدالکریم نوشیروانی نے محکمہ صحت کے تحت مشتہر کی گئی اسامیوں میں بعض اضلاع کو نظر انداز کرنے جبکہ پنجگور کو 3سو لیڈی ہیلتھ ورکرز کی آسامیاں دینے کی بات کرتے ہوئے اس پر شدید احتجاج کیا ۔ اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر مختلف اراکین نے اس مسئلے پر بات کی نیشنل پارٹی کی ڈاکٹر شمع اسحاق نے کہا کہ وزیر صحت رحمت صالح بلوچ کی موجودگی میں اس مسئلے پر بات ہوتو اچھا ہوگا تاکہ وہ اس پر بات کرسکیں۔

۔وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ اگر یہ واقعی مس پرنٹنگ کا نتیجہ ہے اور 30کی بجائے 300چھپا ہے تو اچھی بات ہے اس پر بات کریں گے اورا راکین کے تحفظات کاازالہ کریں گے پوائنٹ آف آرڈر پر پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ بی آرسیز کے اساتذہ کا مسئلہ بدستور موجود ہے اسے دیکھا جائے، انہوں نے کہا کہ محکمہ زراعت ایگریکلچر گریجوایٹس کے بیس فیصد پروموشن کا کوٹہ تھا جس میں تبدیلی کی گئی ہے بتایا جائے کہ ایسا کیوں کیا گیا ہے ۔

جمعیت العلماء اسلام کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ فیڈرل لیویز کے اہلکاروں کی تعیناتی اور ترقیوں کا مسئلہ ہے اس پر وزارت سیفران اور وفاقی وزارت داخلہ سے بات کی جائے ۔بعدازاں سپیکر نے اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا۔