موصل کے نزدیک تاریخی شہر نمرود میں عراقی فورسز اور داعش میں لڑائی

تاریخی نوادرات تباہ ہونے کا خدشہ،قدیم عمارتوں میں رکھے مجسمے بتوں کااسلامی تعلیمات سے تعلق نہیں،داعش

جمعہ 11 نومبر 2016 12:59

بغداد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 نومبر2016ء) عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل کے نزدیک واقع تاریخی مقام نمرود میں سرکاری فورسز اور داعش کے جنگجوؤں کے درمیان لڑائی جاری ہے اور اس سے اس شہر میں موجود بچھے کچھے عالمی ثقافتی ورثے کے لیے خطرات پیدا ہوگئے ۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق عراق کی مشترکہ آپریشنز کمانڈ نے ایک بیان میں کہا کہ فوجی دستے اور ان کی اتحادی ملیشیا الحشد العشائری داعش کے زیر قبضہ دو دیہات کی جانب پیش قدمی کررہے ہیں۔

یہ دونوں گاؤں عباس رجب اور النعمانیہ نمرود کے نزدیک واقع ہیں اور یہ موصل شہر سے جنوب میں تیس کلومیٹر دور واقع ہیں۔نمرود قدیم دور میں مشرق وسطیٰ کا عظیم مرکز رہا ہے۔یہ تیرھویں صدی قبل از مسیح میں تعمیر کیا گیا تھا اور آشوری سلطنت کا دارالحکومت رہا تھا۔

(جاری ہے)

اس کے حکمرانوں نے بڑے بڑے محلات اور قصر تعمیر کیے تھے اور دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے ماہرین آثار قدیمہ ڈیڑھ سو سال سے زیادہ عرصے تک اس قدیم شہر کا رٴْخ کرتے رہے تھے۔

ماضی میں اس شہر میں پتھر سے بنے مجسمے اور دوسرے آثار کی دنیا بھر کے عجائب گھروں میں نمائش کی جاتی رہی ہے۔جون 2014ء میں جب داعش کے جنگجوؤں نے اس شہر قبضہ کیا تو اس وقت بہت سے تاریخی نوادر، آثار اور ڈھانچا موجود تھا۔گذشتہ سال اپریل میں داعش نے انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی جس میں اس کے جنگجو ہتھوڑوں سے مجسموں کو توڑ رہے تھے یا تاریخی آثار و عمارتوں کو بارود سے اڑا رہے تھے۔

داعش کے جنگجوؤں نے عراق اور شام میں اپنے زیر قبضہ تاریخی آثار اور عمارتوں کا یہی حشر کیا تھا۔انھوں نے موصل کے نواح میں قدیم نینویٰ کی بستی ، جنوب میں صحرا میں واقع حطرا اور پڑوسی ملک شام میں واقع تاریخی شہر تدمر میں قدیم عمارتوں کو بلڈوزروں کے ذریعے مسمار کردیا تھا یا پھر ان میں بارود بھر کر انھیں دھماکوں سے اڑا دیا تھا۔داعش کا کہنا تھا کہ قدیم عمارتوں میں رکھے مجسمے بت ہیں اور یہ بت پرستی کی نشانیاں ہیں۔

ان کا اسلام کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ،اس لیے ان کا خاتمہ ضروری ہے۔ایک طرف تو داعش کا یہ موقف تھا دوسری جانب انھوں نے تاریخی نوادرات کو اسمگل کرکے کثیر زرمبادلہ کمایا تھا اور وہ اپنے زیر قبضہ علاقوں میں تاریخی عمارتوں سے ملنے والے مجسموں، مورتیوں یا قدیم اشیاء کو بلیک مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت کرکے دولت کماتے رہے ہیں۔

متعلقہ عنوان :