بلوچستان اسمبلی میں پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملے سے متعلق مشترکہ تحریک التواء پر بحث

سانحہ پی ٹی سی میں جو بھی ملوث عناصر ہیں انکے خلاف کے کارروائی ہوگی٬ سیکورٹی وجوہات کی بنیاد پر تمام چیزیں منظر عام پر نہیں لاسکتے٬حکومتی اور اپوزیشن اراکین دہشت گردوں کے خلاف کاروائیوں سے متعلق ایون کو ان کیمرہ آگاہ کرنے کو تیار ہوں٬دہشت گردی کے خلاف اکیلے جنگ لڑناحکومت کے بس کی بات نہیں ہے مستعفی ہونے سے مسائل حل ہوتے ہیں تو میں ہو جاتا ہوں٬ثناء اللہ زہری رئیسانی حکومت کا خاتمہ ہوا تو کیا حالات تبدیل ہو گئے کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈاون کر رہے ہیں٬یہ حقیقت ہے کہ افغانستان کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہو رہی ہے خود کش بمبار افغانستان سے ہی آئے تھے ہم نہیں کبھی صوبے دودھ اور شہید کی نہریں بہانے کا دعویٰ نہیں کیا٬ امن کے قیام کے لئے حکومت سے تعاون کو تیار ہیں مگر خدارا سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ آج خون میں لت پت ہے٬وزیراعلیٰ بلوچستان کا اظہار خیال

پیر 7 نومبر 2016 21:06

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 07 نومبر2016ء) بلوچستان اسمبلی میں پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملے سے متعلق مشترکہ تحریک التواء پر حکومتی اور اپوزیشن اراکین نے کہا ہے کہ سانحہ پی ٹی سی میں جو بھی ملوث عناصر ہیں انکے خلاف کے کارروائی ہوگی سیکورٹی وجوہات کی بنیاد پر تمام چیزیں منظر عام پر نہیں لاسکتے دہشت گردوں کے خلاف کاروائیوں سے متعلق ایون کو ان کیمرہ آگاہ کرنے کو تیار ہوںدہشت گردی کے خلاف اکیلے جنگ لڑناحکومت کے بس کی بات نہیں ہے مستعفی ہونے سے مسائل حل ہوتے ہیں تو میں ہو جاتا ہوںرئیسانی حکومت کا خاتمہ ہوا تو کیا حالات تبدیل ہو گئے کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈاون کر رہے ہیںیہ ایک حقیقت ہے کہ افغانستان کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہو رہی ہے خود کش بمبار افغانستان سے ہی آئے تھے ہم نہیں کبھی صوبے دودھ اور شہید کی نہریں بہانے کا دعویٰ نہیں کیا آج صوبے کے لوگ دعا کر رہے ہیں کہ ہمیں بلوچستان میں کیوں پیدا کیا امن کے قیام کے لئے حکومت سے تعاون کو تیار ہیں مگر خدارا سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ آج خون میں لت پت ہے ان خیالات کا اظہار بلوچستان اسمبلی میں سانحہ پی ٹی سی سے متعلق اپوزیشن کی تحریک التو پر بحث کر تے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے کہا ہے کہ سانحہ پی ٹی سی میں جو بھی ملوث عناصر ہیں انکے خلاف کے کارروائی ہوگی سیکورٹی وجوہات کی بنیاد پر تمام چیزیں منظر عام پر نہیں لاسکتے دہشت گردوں کے خلاف کاروائیوں سے متعلق ایون کو ان کیمرہ آگاہ کرنے کو تیار ہوںہم اپنے بچوں کو کود نہیں مروانا چاہتے سانحہ سول ہسپتال میں جوڈیشل کمیشن کی سفارشات پر من و عن عمل کیا جائے گا پی ٹی سی حملے سے متعلق 3کمیٹیاں کام کر رہی ہیں صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے تحریک التواء پر بحث کر تے ہوئے کہا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے حکومت کے ہی ہیںکچھ ہو تو ذمہ دارے حکومت پر اور کامیابی ہو تو کہا جاتا ہے سیکورٹی اداروں نے اچھا کیاصوبائی حکومت قیام امن سمیت تمام شعبوں میں بہتری کیلئے اقدامات اٹھا رہی ہے بلوچستان اسمبلی میں سانحہ پی ٹی سی سے متعلق تحریک التو پر صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے بحث کر تے ہوئے کہا ہے کہ را کا نام لیکر ہم اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہو رہے عوام کو بتانا چاہتے یں کہ کو ہمیں غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے واقعہ کے فوری بعدغفلت برتنے والے پولیس افسران کو معطل کیا گیا ہے دہشت گردی کے خلاف اکیلے جنگ لڑناحکومت کے بس کی بات نہیں ہے مستعفی ہونے سے مسائل حل ہوتے ہیں تو میں ہو جاتا ہوںرئیسانی حکومت کا خاتمہ ہوا تو کیا حالات تبدیل ہو گئے کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈاون کر رہے ہیںیہ ایک حقیقت ہے کہ افغانستان کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہو رہی ہے خود کش بمبار افغانستان سے ہی آئے تھے ہم نہیں کبھی صوبے دودھ اور شہید کی نہریں بہانے کا دعویٰ نہیں کیا حکومت اپنی صلاحیت کے مطابق دہشت گردی کے خلاف اقدام اٹھا رہی ہے دہشت گردی ایک اہم مسئلہ ہے اس پر کھل کر بات ہونی چاہے ہم دہشت گردوں سے نہ ڈرتے ہیں اور نہ ڈریں گے اس سے بڑے سانحات ہوسکتے تھے جسے ہمارے سیکورٹی اداروں نے بچایا ہے عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت ے دور میں ایسے واقعات ہوئے جو ماغی میں ہم نے نہیں دیکھے اس دور حکومت میں ہمارے بچے اور خواتین بھی محفوظ نہیں ہیں سول ہسپتا ل حملے کے بعد ہمیں یہ بولا جا رہا ہے کہ اور بھی دہشت گرد آرہے ہیںتمام ادارے حکومت کے ماتحت ہیں تو ہم بھی حکومت سے پوچھنے پرحق بجانب ہیں انہوں نے کہا ہے کہ ہم یہاں نالیاں اور سڑکیں بنانے نہیں آئے عوام کو تحفظ دینا حکومت کا فرض ہے وزیر داخلہ ایک سپاہی کا تبادلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے اگر حکمران عوام کو تحفظ نہیں دے سکتے تو انکے پاس حکومت کرنے کا کوئی جواز نہیںسانحہ پی ٹی سی کی انکوری بھی اسی جوڈیشل کمیشن میں ہونی چاہے حکومت شہید ہونے والے وکلا کو 1ایک کروڑ جبکہ اسی واقعہ کے دیگر شہدا کوصرف 10دس لاکھ دے رہی ہے اپوزیشن لیڈرمولانا عبدالواسع نے کہا ہے کہ آج صوبے کے لوگ دعا کر رہے ہیں کہ ہمیں بلوچستان میں کیوں پیدا کیا امن کے قیام کے لئے حکومت سے تعاون کو تیار ہیں مگر خدارا سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ آج خون میں لت پت ہے انہوں نے کہا ہے کہ3 سال کے دوران حکومت دعوے کر رہے ہیں تمام ایوان کو ان کیمرہ بریفنگ دیا جائیگا مگر اب تک نہیں دیا گیا جب کوئی واقعہ رونما ہو جا تا ہے تو جان خلاصی کیلئے ’’را‘‘ اور داعش کو مورد الزام ٹہرایا جا تا ہے اور بنیادی وجہ سی پیک بتا رہے ہیں بلوچستان کے عوام اور شہید ہونیوالے وکلاء وزیر تربیت اہلکاروں کا سی پیک سے کیا واسطہ ہے کیونکہ بلوچستان میں تو ترقی نام کی کوئی چیز نہیں ہے سی پیک جہاں پر بن رہا ہے وہاں پر تو اس طرح حالات نہیں ہے سانحہ 8 اگست کے حوالے سے اگر حکومت کو کچھ عمل نہیں تھا لیکن24 اکتوبر کے سانحہ کا علم تھا لیکن اس کے باوجود کیوں کا رروائی نہیں کی گئی حکومت ان تمام تر حالات کے ذمہ دار ہے ہمیں نہ سی پیک چاہئے اور نہ ہی کوئی اور ترقیاتی منصوبہ ہمیں صرف امن دیا جائے اپوزیشن تمام تر اختلافات کے باوجود امن وامان اور بلوچستان کے معاملات پر حکومت کیساتھ ہے رکن صوبائی اسمبلی شاہدہ روف نے کہا ہے کہ حکومت ہر واقعہ رونما ہونے کے بعد اقدامات کرتی ہے ایسی غیر سنجیدہ روش نے دشمن کو دیدہ د لیر بنادیا ہے رکن صوبائی اسمبلی جان محمد جمالی نے کہا ہے کہ سول ہسپتال سانحہ بہت بڑا ہے جسمیں ہمارے پڑھے لکھے طبقے کو مارا گیا سول ہسپتال کا غم ابھی ہراتھاپی ٹی سی میں ہمارے پولیس کیڈیٹس کو شہید کر دیا گیا کیا صوبائی وزیر داخلہ کی ذمہ داری یہ ہے کہ ہرو اقعہ کے بعد ایک پریس کانفرنس کر دیںیہاں تمام پولیس افسران کے گھر کینٹ میں کیوں ہیں جمہوریت میں لوگ اپنی غلطی پر خود مستعفی ہو جاتے ہیں ٬ہمیں ایس ایچ او کو بھی معطل کرنا پڑتا ہے پولیس ٹرینگ کالج میں تربیت یافتہ اہلکار تھے مگر افسوس انکے پاس ہتھیار تک نہیں تھے رکن صوبائی اسمبلی منظور کاکڑ نے کہا ہے کہ پولیس ٹریننگ کالج کے احاطے کی دیواریں بنا دیتے تو آج ایسا واقعہ رونما نہ ہوتاپی ٹی سی کو تو شکار گاہ بنا دیا گیا جہاں دہشت گرد ہمارے ہلکاروں کو کھلے عام مارتے رہے پولیس ایف سی اے ٹی ایف ہمارے ہیں انہوں نے ہی ہمیں تحفظ دینا ہے باہر سے کوئی نہیںآئیگا وزیر داخلہ کو اختیارات دینا ہونگے تاکہ ہم ان سے پوچھ سکیں رکن صوبائی اسمبلی حسن بانوں نے کہا ہے کہ محض 3دہشت گردوں نے ہمیں تگنی کا ناچ نچوا یا دہشت گرد وں سے درخواست ہے کہ ایک حملے کے بعد ہمیں کچھ وقت دیا کریں پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین عبدالمجید خان اچکزئی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں چند سال کے دوران 200 ارب روپے قیا م امن پر خرچ ہوئے لیکن اس کے باوجود امن وامان کی صورتحال میں بہتری نہیں آئی دراصل پولیس خود ہی کرپشن کی جڑ بن چکی ہے وفاقی وزیر داخلہ سانحہ8 اگست کے بعد نہیں آئے اور سانحہ پی ٹی سی کے واقعہ کے بعد کوئٹہ تشریف لائے ان تمام تر کی ذمہ داری وفاقی وزیر داخلہ پر عائد ہو تی ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا ہے کہ افسوس ہے کہ سانحہ پی ٹی سی میں 700کیڈیٹس کی سیکورٹی کے لئے صرف ایک اہلکار تعینات تھا ایڈیشنل آئی جی پولیس کو معطل کر کے اس سے تحقیقات کا آغاز کیا جائے اور ان تمام تر صورتحال کے باوجود ان کو معطل نہیں کیا گیا ہمیں بتایا جا ئے کہ دہشتگردوں کے ٹھکانے کہاں پر ہیں اور ہر روز ہمیں لاشیں تحفے میں دیتے ہیں لیکن دہشتگردوں کو نہیں پکڑا جا تا وفاقی وزیر داخلہ کے ماتحت24 ایجنسیاں کام کر رہی ہی8 اگست اور24 اکتوبر کے واقعات میں ملوث عناصر کو کیوں گرفتار نہیں کیا جا تا کیونکہ یہ واقعات پنجاب نہیں ہوئے اگر پنجاب میں ہو تے تو اسی وقت دہشتگردوں کر پکڑتے ہمارے صوبے میں واقعات ہو رہے ہیں اس لئے کسی کا کو ئی پرسان حال نہیں ہے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان دہشت گروں کا خاتمہ نہیں چاہتے چند سال کے دوران 2سو ارب روپے قیام امن پر خرچ ہوئے ہیںدراصل پولیس خود ہی کرپشن کی جڑ بن چکی ہے صوبائی وزیر نواب محمد خان شاہوانی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں بد امنی غفلت ہوسکتی ہے جان بوجھ کے یہاں کچھ نہیں کروایا جارہا یہاں آج بھی فراری ہتھیار ڈال کر قومی دہارے میں شامل ہو رہے ہیںدہشت گردی کے خلاف ہم سب کو اپنا کردارا دا کرنا ہو گا دہشت گردی نے ایوان میں بیٹھے کئی لوگوں کے گھر اجاڑے ہیںحکومت امن کے قیام دہشت اور وحشت کے خاتمے کیلئے ہر ممکن اقدام اٹھا رہی ہے صوبائی وزیر شیخ جعفر خان مندوخیل نے کہا ہے کہ عالمی دشمنوں کی منصوبہ بندی میں کوئٹہ کو ٹارگٹ بنا یا جارہا ہے ایسے حالات میں ہم سب کو سیکورٹی انتظامات کرنا ہونگے حکومت اورفورسز بے فکر نہیں کمزوریاں ہیں جنہیں دور کیا جاسکتا ہے اب ہمیں محتاط ہونا ہو گا تاکہ دشمن کو موقع نہ ملے لوگوں کے ہتھیار ڈالنے سے امن دشمنوں کو بھی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ بزدلانہ کارروئی کرتے ہیںہم حالت جنگ میں ہیں ٬پولیس اور فورسز کی نفری میں اضافہ ناگزیر ہے رکن صوبائی اسمبلی سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا ہے کہ اپنے بچوں کے جنازوں پر بین کرتی ماوں کا دکھ پورے بلوچستان کاہے ہر واقعہ کو سی پیک کے ساتھ منسلک کرنا ہرگز درست نہیںاب بہت ہو گیا ہم نے بہت لاشیں اٹھالیں ہیںپولیس کی اعلیٰ قیادت چھاونی میں بیٹھی ہے بلٹ پروف گاڑیوں میں گھومتی ہے اگر افسران کی یہ حالت ہے تو اہلکاروں کا مورال کیسے بلند ہو گا کہتے ہیں دہشت گرد شہر میں داخل ہو گئے مگر یہ بتائیں کہ تدارک کے لئے کیا اقدامات کئے گئے بلوچستان اسمبلی کا اجلاس10 نومبر تک ملتوی کر دیا ۔