ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں پوری ٹیم یعنی گیارہ کھلاڑیوں سے بائولنگ کروانے کے 4حیرت انگیز مواقع بھی آئے

پیر 7 نومبر 2016 20:16

ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں پوری ٹیم یعنی گیارہ کھلاڑیوں سے بائولنگ کروانے ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 نومبر2016ء) ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں پوری ٹیم یعنی گیارہ کھلاڑیوں سے بائولنگ کروانے کے 4حیرت انگیز مواقع بھی آئے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق کرکٹ جیسے "ظالم" کھیل میں حالات کبھی اتنے سنگین بھی ہوئے ہیں کہ ٹیم کے تمام گیارہ کھلاڑیوں سے گیند کروائی گئی٬ حتیٰ کہ وکٹ کیپر کو بھی اپنی جگہ سے ہٹایا گیا اور دستانے اتروا کر گیند تھمائی گئی۔

ہے نا حیرت انگیز ۔پہلی بار ایسی صورتحال 1884ء میں پیش آئی۔ اگست 1884ء میں اوول میںانگلینڈاورآسٹریلیاکی ٹیموں کے مابین تین روزہ کرکٹ میچ میں۔مہمان آسٹریلیا نے پہلی اننگز کھیلنا شروع کی تو کھیلتا ہی چلا گیا۔ میزبان ٹیم بالنگ کرواتی رہی لیکن وکٹیں تھیں کہ گرنے کا نام ہی نہ لیتی تھیں۔

(جاری ہے)

تب معاملہ کچھ یوں تھا کہ چونکہ کرکٹ کا کھیل اپنے ابتدائی مراحل میں تھا اس لیے بہت سے قوانین موجود نہیں تھے۔

مثلاً اننگز ڈیکلیئر کرنے کا قانون۔ لہٰذا آسٹریلیا کو ہر حال میں بیٹنگ کرنی تھی جب تک آسٹریلیا کی تمام دس وکٹیں نہ گر جائیں۔جس پرانگلینڈکے تمام کھلاڑیوں نے قسمت آزمائی کی٬ اور وکٹ کیپر الفریڈ لٹل ٹن نے بھی بالنگ کروائی اور آسٹریلیا 551 رنز بناکر آؤٹ ہوا۔ٹیسٹ کرکٹ کے اس مقابلے ہی میں ایسا موقع آنے سے یوں لگتا تھا کہ اب ایسے اتفاقات متواتر ہوں گے٬ لیکن پھر اگلے 96 سال تک ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔

مارچ 1980ء میں آسٹریلیا کے ساتھ پاکستان نے وہی کیا جو آسٹریلیا نے انگلستان کے ساتھ کیا تھا۔ فیصل آباد میں کھیلے گئے میچ میں آسٹریلیا نے گریگ چیپل کی ڈبل سنچری اور گراہم یالپ کے 172 رنز کی مدد سے 617 رنز بنائے تھے۔ جواب میں پاکستان کے جاوید میانداد اور وکٹ کیپر تسلیم عارف نے آسٹریلوی گیند بازوں کا خون پسینہ خوب ایک کیا۔ ان دونوں کو آؤٹ کرنے کے لیے کپتان گریگ چیپل نے وکٹ کیپر روڈ مارش تک سے گیند کروائی٬ لیکن آسٹریلیا اس کے باوجود صرف دو وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکا اور میچ ڈرا ہوگیا۔

اس میچ میں جاوید میانداد نے 106 جبکہ تسلیم عارف نے 210 رنز بنائے تھے اور دونوں ہی ناٹ آؤٹ رہے تھے۔اگلی بار ایسا واقعہ پیش آنے میں وقت تو لگالیکن "صرف" 22 سال۔ مئی 2002ء میں بھارت دورہ ویسٹ انڈیز پر تھا اور سینٹ جانز کے میدان پر دونوں ٹیموں کے درمیان سیریز کا چوتھا ٹیسٹ میچ کھیلا جارہا تھا۔ بھارت نے پہلے بلے بازی کرتے ہوئے 513 رنز بنائے٬ لیکن ویسٹ انڈیزنے وہ پہاڑ سر کرلیا۔

کپتان کارل ہوپر٬ شیونرائن چندر پال اور رڈلی جیکبز نے سنچریاں بنائیں۔ یہاں بھی بھارت کو بالنگ کے شعبے میں ہر کھلاڑی کی خدمات حاصل کرنی پڑیں٬ حتیٰ کہ وکٹ کیپر اجے رترا نے بھی قسمت آزمائی کی۔ باقاعدہ گیند بازوں کا تو حال ہی نہ پوچھیے٬ اشیش نہرا نے 49٬ ظہیر خان نے 48 اور جواگل سری ناتھ نے 45 اوورز کروائے٬ جبکہ سچن ٹنڈولکر نے بھی 34 اوورز پھینکے٬ لیکن ویسٹ انڈیز کے تمام کھلاڑی آؤٹ نہیں ہوسکے۔

ویسٹ انڈیز نے 629 رنز بنائے اور میچ آخر ڈرا ہوگیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ میں چوتھی اور تاحال آخری بار یہ اتفاق ایک بار پھر سینٹ جانز ہی کے میدان پر ہوا۔ ایک بار پھر ویسٹ انڈیز کے بلے بازوں ہی نے مخالف ٹیم کو ستایا لیکن اس بار مقابلے پر بھارت نہیں٬ بلکہ جنوبی افریقا تھا۔ صرف تین سال بعد٬ یعنی اپریل 2005ء میں جنوبی افریقا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 588 رنز بنائے۔

اے بی ڈی ولیئرز٬ گریم اسمتھ٬ ڑاک کیلس اور ایشویل پرنس نے سنچریاں بنائیں۔ جواب میں ویسٹ انڈیز نے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ کرس گیل نے 317 رنز کی طوفانی اننگز کھیلی٬ رام نریش سروان٬ شیونرائن چندر پال اور ڈیوین براوو نے سنچریاں بنائیں اور ویسٹ انڈیز کا مجموعہ 747 رنز تک پہنچا دیا۔ جنوبی افریقا نے وکٹ کیپر مارک باؤچر تک کی خدمات حاصل کیں٬ لیکن میچ فیصلہ کن نہیں بنایا جاسکا۔ 235 اوورز کروانے میں جنوبی افریقا کو یقینا چھٹی کا دودھ یاد آگیا ہوگا۔اب گیارہ سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ایسا موقع نہیں آیا ہے۔ آپ کس ٹیم کے تمام گیارہ کھلاڑیوں کو گیند کرواتے ہوئے دیکھنا چاہیں گی ۔

متعلقہ عنوان :