کراچی میں فرقہ وارانہ تنظیموں اور93 مدارس کے خلاف کریک ڈائون٬ 86 گرفتار

پیر 7 نومبر 2016 20:02

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 07 نومبر2016ء) کراچی میں فرقہ وارانہ تشدد میں ایک درجن افراد سے زائد ہلاکتوں کے بعد سندھ حکومت نے کراچی کی93مدارس اورگردونواح کے علاقوں میں کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے۔ سرکاری حکام کے مطابق جن مدارس کے خلاف آپریشن شروع کا گیا ہے۔ پولیس نے رینجرز کے ہمراہ شیعہ اسکالر علامہ مرزا یوسف حسین کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا اورانھیں حراست میں لے لیا۔

بعدازاں پولیس نے ان کی رہائش گاہ سے متصل امام بارگاہ کی تلاشی لی٬ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے رضویہ امام بارگاہ میں بھی آپریشن کیا اور 4 دیگر مشتبہ افراد کو حراست میں لیکر ان کے پاس موجود لٹریچر تحویل میں لے لیا۔ بعدازاں پولیس کی ایک بھاری نفری ناگن چورنگی پر صدیق اکبر مسجد کی عمارت میں داخل ہوئی۔

(جاری ہے)

پولیس نے اہلسنت والجماعت کے سیکریٹری جنرل مولانا تاج حنفی اور10 دیگر افراد کو حراست میں لے کرانھیں نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔

وزارت داخلہ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ ’’مذہبی مدارس کی جیوٹیگنگ کا عمل مکمل ہوچکا ہے اور وزیر اعلیٰ سندھ نے ڈی جی رینجرز اور دیگر سیکیورٹی ایجنسیوں سے مشاورت کے بعد پولیس اور رینجرز کو احکام جاری کیے ہیں کہ وہ دہشت گرد عناصر کیخلاف کریک ڈاؤن شروع کریں۔ایڈیشنل آئی جی مشتاق مہر نے وزیراعلیٰ کوابتدائی انکوائری رپورٹ پیش میں بتایا کہ ’’مشتبہ ملزمان نے ٹارگٹ کلنگ کے ان واقعات میں موٹر سائیکلیں تو تبدیل کیں تاہم ہتھیار ایک جسیا ہی استعمال کیا‘‘۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے مہرکی انکوائری رپورٹ پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ پولیس حساس علاقوں میں گشت کیوں نہیں کر رہی۔ یہ بہت سنگین معاملہ ہے کہ وہی مجرم صرف موٹرسائیکلیں تبدیل کرکے ایک کے بعد دوسرے علاقے میں لوگوں کو قتل کرنے نکل جاتے ہیں اور انھیں نہ تو پولیس کا خوف ہے اور نہ ہی دیگر ایجنسیوں کا ڈر٬یہ بہت ہی حیران کن بھی ہے اور ناقابل قبول بھی ہے‘‘۔ہلاکتوں کے بعدشہر میں دونوں فرقوں کے ارکان میں کشیدگی غالب ہے اور رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ مزید کسی ہائی پروفائل ٹارگٹ کلنگ سے صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔

متعلقہ عنوان :