عدلیہ ہی سسٹم کے تحفظ آئین و قانون کی حکمرانی کا ضامن ادارہ ہے ‘عدالت عظمیٰحقائق پر مبنی ثبوتوں کو نظر انداز کئے بغیر عوامی امنگوں کی ترجمانی کرے ‘ سپریم کورٹ پانامہ لیکس کے حوالے سے میرٹ پر انصاف کر کے ملک پاکستان کے 22کروڑ عوام کو افراتفری اور ہیجانی کیفیت سے نکالے ‘ عوام کو سپریم کورٹ سے ریمارکس کی نہیں بلکہ انصاف پر مبنی فیصلہ کی ضرورت ہے

سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی مقامی صحافی عمیر اشرف کے والد کی ختم کے بعد میڈیا سے بات چیت

ہفتہ 5 نومبر 2016 22:04

سیالکوٹ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 05 نومبر2016ء) عدلیہ ہی سسٹم کے تحفظ آئین و قانون کی حکمرانی کا ضامن ادارہ ہے لہذا عدالت عالیہ حقائق پر مبنی ثبوتوں کو نظر انداز کئے بغیر عوامی امنگوں کی ترجمانی کرے ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان پانامہ لیکس کے حوالے سے میرٹ پر انصاف کر کے ملک پاکستان کے 22کروڑ عوام کو افراتفری اور ہیجانی کیفیت سے نکالے ۔

عوام کو سپریم کورٹ سے ریمارکس کی نہیں بلکہ انصاف پر مبنی فیصلہ کی ضرورت ہے ۔عوام کی نظریں سپریم کورٹ آف پاکستان پر لگی ہوئی ہیں۔ آج پاکستان کے آئین کے تحت حلف لینے والوں کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ تاریخ کے نازک موڑ سے آئین پاکستان بچاتے ہیں یا طاقتور لٹیروں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے مقامی صحافی عمیر اشرف کے والد کے دسواں شریف کے ختم کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا اور کہا کہ سپریم کورٹ کے اوپر اللہ تعالیٰ کی عدالت ہے جہاں کوئی نہ تو بد عنوانی چل سکتی ہے اورنہ ہی کوئی بوگس ڈاکومنٹ کارروائی کا حصہ بن سکتا ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے انصاف پر مبنی فیصلہ سے عوامی امنگوں کی ترجمانی ہو گی اور ملک پاکستان میں حقیقی معنوں میں عوامی جمہوری حکمرانی کا سورج عدلیہ کے ایوانوں سے طلوع ہو کر پاکستان کے جمہوری کلچر پر سنہری کرنیں ڈالے گا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے دانستہ طور پر حقائق سے چشم پوشی اور بروقت درست اقدامات نہ کرنے کی قیمت پوری قوم کو ادا کرنی پڑ رہی ہے اگر الیکشن کمیشن اپنا بروقت آئینی کردار ادا کرتا تو آئین طاقتور کے گھر کی لونڈی نہ بنتا ۔

عام پاکستانی شہری کو سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے ریمارکس کی نہیں بلکہ پانامہ لیکس کا فیصلہ سننے کے منتظر ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کے ایوانوں سے آج تک پنجاب کے حکمرانوں کے آئین شکنی کے اقدامات پر فیصلوں کا فقدان رہا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ پنجاب کے قانون شکن اعلیٰ عدلیہ کو ذاتی اثرو رسوخ اور مخصوص طرز عمل سے ڈکٹیشن دینے کی کوشش کی اور تاریخ کے اس اہم ترین موڑ پر آئین اور قانون کی بالا دستی کو یقینی بنا کر سپریم کورٹ تاریخ کے اوراق میں اپنے آپ کو سرخرو کر سکتی ہے ۔