بلا خوف و خطر انصاف کی فراہمی کو ممکن بنانے کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان کا کردار نمایاں ہے‘جسٹس صداقت علی خان

ہفتہ 5 نومبر 2016 20:56

اٹک۔5 نومبر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 05 نومبر2016ء) انصاف کا بول بالا صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب بار اور بنچ اپنے ذاتی مفادات اور پسند ناپسند کو پسِ پشت ڈال کر قانون کی بالادستی کو سامنے رکھ کر فیصلے کریں۔ ضلعی عدالتوں میں قانون کے مطابق فیصلے ہو رہے ہیں۔ بلا خوف و خطر انصاف کی فراہمی کو ممکن بنانے کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان کا کردار نمایاں ہے۔

عوام کی سہولت کے لئے تمام مقدمات کی تفصیل ای کورٹ کی ویب سائٹ پر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ ڈسٹرکٹ بار اٹک نے پنجاب ہائی کورٹ کو دوسرا جج دے کر اپنا نام روشن کیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار جسٹس صداقت علی خان نے لاہور ہائی کورٹ کے 150سال مکمل ہونے پر ضلع کونسل ہال اٹک میں منعقدہ خصوصی تقریب سے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے خطاب کے دوران کیا۔

(جاری ہے)

قانون کی حکمرانی کے عنوان سے منعقد کی جانے والی کانفرنس کا اہتمام ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اٹک سہیل ناصر کی جانب سے کیا گیا تھا۔

عدلیہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جسٹس منصور علی شاہ کی کاوشوں سے 150سال مکمل ہونے پر تقریبات کا آغاز کیا گیا ہے۔ اس موقع پرایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج٬ سول ججز٬ ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج منظور حسین ملک٬ ارشد محمود چیمہ ٬ ڈی جی منسٹری آف لاء شاہد اقبال٬ ڈی سی او اٹک رانا اکبر حیات٬ اے سی اٹک فاطمہ بشیر٬ ایم ایس ڈاکٹر سلطان محمود خان٬ اور ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر شہزاد نیازکے علاوہ وکلاء اور صحافیوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔

سٹیج سیکرٹری کے فرائض سینیئرسول جج راجہ جہانزیب اخترنے انجام دیے۔ تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلامِ پاک اور قومی ترانے سے کیا گیا۔ ہدیہ نعت محمد افسر ہنجرأ نے پیش کیا۔ تقریب سے مقررین جن میں منظور حسین ملک٬ سہیل ناصر٬ محمد افسر ہنجرأ٬ مس کرن جہانگیر٬ ارشد محمود چیمہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قانون کی بالادستی میں عدلیہ کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔

قاضی کے منصب کا تقاضہ یہ ہے کہ فریقین کے ساتھ ایک جیسا رویہ اختیار کرے ۔ فرائضِ منصبی کی ادائیگی کے دوران جسٹس مولوی انوار الحق اور سہیل ناصر جیسے ججز مشعلِ راہ ہیں۔ ضمانت کے سلسلے میں قانون کا حوالہ دیتے ہوئے مقررین نے کہا کہ جس جج کے پاس اختیار ہے اسے ضمانت لے لینی چاہیے تا کہ اعلیٰ عدالتوں تک معاملہ پہنچنے سے ان پر کام کا زور نہ پڑے۔

قانون آئین اور جمہوریت کی سربلندی کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائیں۔ ہزاروں سال قبل سقراط نے قانون کی بالادستی کے لیے زہر کا پیالہ پیا۔ اور اپنے ساتھیوں کے لیے اپنی آزادی کے لیے کوشش سے روکا اور ریاست کے قانون کی عملداری کے لیے اپنی جان دے دی۔ عدلیہ کی تاریخ میں یہ مثال ایک روشن مینار ہے۔ اس کو یہ سزا دینے والوں کا ذکر تاریخ میں گمنام کرداروں کے طور پر کیا جاتا ہے مگر اتنی صدیاں بیتنے کے بعد بھی سقراط کو آئین اور قانون کی بالادستی کی تاریخ میں روشن مثال کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔

متعلقہ عنوان :