پاکستان کے سر کا ری قر ضہ جا ت جی ڈی پی کے تنا سب سے بڑھنا تشویشناک ہے ٬ شیخ خالد تواب

قر ضہ جا ت میں جی ڈی پی کے 46فیصد تو صر ف ملکی قر ضہ جا ت ہیں با قی غیر ملکی قر ضہ جا ت ہیں٬ نائب صدر فیڈریشن پاکستان چیمبر آف کامرس

جمعہ 28 اکتوبر 2016 19:47

کرا چی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 28 اکتوبر2016ء) فیڈ ریشن آف پاکستان چیمبر ز آف کامرس اینڈ انڈ سٹر ی کے سنیئر نائب صدر شیخ خالد تواب نے پاکستان کے سر کا ری قر ضہ جا ت جی ڈی پی کے تنا سب سے بڑھنے پر تشو یش کا اظہا ر کیا ۔ انہوں نے کہاکہ سر کا ری قر ضہ جا ت کا بڑ ھنا پاکستان کے لیے خطر ناک ہے جو کہ اس وقت پاکستان کی جی ڈی پی کا 66.47فیصد تک اور 19.67ٹر یلین رو پے تک پہنچ چکے ہیں جبکہ پچھلے سال یہ قر ضہ جا ت اسٹیٹ بینک کے اعداد و شما ر کے مطا بق جی ڈی پی 63.8 فیصد اور 17.38ٹر یلین رو پے تھے ۔

اسن قر ضہ جا ت میں جی ڈی پی کے 46فیصد تو صر ف ملکی قر ضہ جا ت ہیں با قی غیر ملکی قر ضہ جا ت ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ با وجو د اس کے کہ اس سال ملک میں مالیا تی استحکام رہا ہمارے سر کار ی قر ضہ جا ت بے پنا ہ اضا فہ ہو ا جس کے لیے ایک مضبو ط پالیسی کی ضرورت ہے جو کہ ملکی اور غیر ملکی قر ضہ جا ت میں کمی کر ے ۔

(جاری ہے)

ایف پی سی سی آئی کے سنیئر نائب صدر نے مز ید کہاکہ بڑ ھتے ہو ئے قر ضہ جا ت پاکستان کی قو می سلا متی اور خو د مختا ری کے لیے سنگین خطر ہ ہیں جو کہ کا روبا ری سر گر میوں میں اضا فے سر مایہ کا ری ٬ اقتصادی ترقی ٬ غر بت کے خا تمے اور رو زگار کے مواقع پیدا کر نے میں رکا وٹیں پیدا کر سکتے ہیں ۔

انہوں نے مزید کہاکہ قر ض کو مستقبل میں واپس بھی کر نا ہے اور پاکستان کے قر ضو ں کا مو جودہ سو د کا بل پاکستان کے تر قیا تی بجٹ سے بھی زیا دہ ہے ۔ اس کے علاوہ قر ضو ں کی ادائیگی کے لیے پاکستان کے ریو نیوں میں اضا فے کی ضرورت ہے جسکے مزید ٹیکسز کا نفا ذ ہی زر یعہ ہے جو کہ کا روباری لاگت میں اضا فے کا با عث بنے گا ۔ خالد تواب نے مز یدکہا کہ بڑ ھتے ہو ئے قر ضہ جا ت ملکی معیشت کے لیے مضمرات پیدا کر سکتے ہیں جیسا کہ مستقبل میں وسائل کو قر ضہ جا ت کی ادائیکیوں کے لیے نا مختص کر نا جو کہ تر قیا تی کا مو ں کے لیے مختص ہوتی ہے کو زیر التوا کر سکتی ہے ۔

انہوں نے مز ید کہا کہ حکو مت کی مالیاتی ذمہ داریو ں اور قر ضہ جات کی تجدید کے متعلق ایک ایکٹ جسے "مالیاتی ذمہ داری اور قرضہ کی حد"ایکٹ کہتے ہیں جو کہ 2005میں منظو ر ہو ا تھا اسکی بھی حکومت کی جانب سے خلاف ورزی ہو رہی ہے ۔ انہوں نے مزید بتا یا کہ ایکٹ کے مطا بق پاکستان کے سر کا ری قر ضہ جا ت کو جی ڈی پی 60فیصد سے زیا دہ نہیںبڑ ھنا چاہیے جو کہ اس وقت 66.47فیصد ہو چکے ہیں اس کے لیے علاوہ پر سال 2.5فیصد کے حساب سے سر کا ری قر ضہ جا ت میں کمی کر نا ہے ۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ اس ایکٹ پر سختی سے عمل در آمد کر ے اور اس کی تعمیل کے لے منا سب اقدا مات کر ے اس کے ساتھ حکومتی آمدنی میں اضافہ اور آخراجات میں کمی تا کہ سر کا ری قر ضہ جا ت میں کمی ہو۔

متعلقہ عنوان :