جوڈیشل کمیشن کی وفا قی سیکرٹری داخلہ کو واقعہ 8اگست کے حوا لے سے آئی جی پو لیس بلو چستان کی رپورٹ٬ایف سی کو بلو چستان میں پو لیس اختیا رات اور دیگر سے متعلق رپورٹس پیر کو پیش کرنے کی ہدایت

بدھ 26 اکتوبر 2016 22:36

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 26 اکتوبر2016ء)سانحہ سول ہسپتال پرجوڈیشل کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وفا قی سیکرٹری داخلہ عا رف احمد خان کو ہدا یت کی ہے کہ وہ 8اگست کو کو ئٹہ میں ہو نے والے واقعات کے حوا لے سے آئی جی پو لیس بلو چستان کی انہیں بھیجوا ئی گئی رپورٹ٬ایف سی کو بلو چستان میں پو لیس اختیا رات اور دیگر سے متعلق رپورٹس پیر کو پیش کرے ۔

گزشتہ روزجو ڈیشل کمیشن کے رو برو وفاقی سیکرٹری داخلہ عارف احمد خان اور ڈائریکٹر جنرل نیکٹا شیخ عمر نے بیانات قلمبند کروائے ۔ سماعت شروع ہوئی تو عدالت کے جج نے نیکٹا کے ڈائریکٹر جنرل شیخ عمر سے بدھ کے روز بھی مختلف سوالات پوچھے جس پر انہوںنے سوالوں کے جوابات دیئے اور اپنا بیان مکمل کرایا ۔

(جاری ہے)

بعد ازاں جوڈیشل کمیشن کے سامنے وفاقی سیکرٹری داخلہ عارف احمد خان پیش ہوئے جنہوںنے بتایا کہ وہ 12 فروری 2016 سے وفاقی سیکرٹری داخلہ کے عہدے پر خدمات انجام دے رہے ہیں اس سے پہلے وہ سیکرٹری کلائمٹ چینج تھے ان سے جب جوڈیشل کمیشن نے استفسار کیا کہ محکمہ کے رولز آف بزنس میں سپیشل سیکرٹری کی تعیناتی کی اجازت ہے تو وہ بولے کہ انہوںنے رولز آف بزنس میں ایسا نہیں دیکھا تاہم مختلف محکموںمیں اسپیشل سیکرٹریز تعینات ہیں وہ جب سیکرٹری داخلہ سندھ تھے تو اس وقت بھی ان کے ساتھ اسپیشل سیکرٹری ہوا کرتا تھا ۔

انہوں نے کہا کہ اسپیشل سیکرٹری کی لکھی ہوئی کوئی ذمہ داری نہیں ہے اسے وزیر یا پھر محکمے کا سیکرٹری اس وقت ذمہ داریاں سونپتا ہے جب اس کی ضرورت ہوتی ہے ۔ سیکرٹری اور اسپیشل سیکرٹری دونوں ایک ہی گریڈ کے ہوتے ہیں ۔ جوڈیشل کمیشن کے جج نے ان سے استفسار کیا کہ جب اسپیشل سیکرٹری کی ذمہ داریاںہی نہیں تو پھر اسے جوڈیشل کمیشن کے پاس کیوں بھجوایا گیا جس پر سیکرٹری داخلہ بولے کہ وہ لاہور میں دیگر کیسز کے سلسلے میں تھے اس لئے ان کا یہاں آنا ممکن نہ تھا ۔

اسپیشل سیکرٹری شعیب صدیقی ہی مناسب ترین آدمی تھا یہ بھی اسی دن ذمہ داریاں سنبھال چکا ہے جس دن میں نے محکمہ وزارت داخلہ میں ذمہ داری سنبھالی تھی ۔ ان سے کہا گیاکہ کمیشن نے انہیں سوال بھیجے تھے اس کا کیا ہوا تو وہ بولے کہ ہم نے کوائریز کو نیکٹا کے اعلیٰ آفیسر احسان غنی کے پاس بھجوایا ۔ جج نے سوال کیا کہ انہو ںنے نیکٹا کے دیئے گئے رسپانسز دیکھے ہیں تو انہوںنے جواب نفی میں دیا پھر کہا کہ جی دیکھے ہیں وہ اسے آن کرتا ہے وہ اسے لا چکے ہیں جب اسے دکھانے کے لئے کہا تو وہ بولے کہ کچھ یہاں ہیں جس پر جج نے کہا کہ کچھ نہیں مکمل رسپانسز دے دیجئے ۔

سیکرٹری داخلہ نے بتایا کہ نیکٹا ایک خود مختار ادارہ ہے این سی ایم سی کے تمام تر وسائل اور اختیارات نیکٹا کو فراہم کئے گئے ہیں جس پر جوڈیشل کمیشن کے جج بولے کہ ان کے پاس کوئی ذمہ داری ہے یا سب کچھ نیکٹا کے حوالے ہیں تو وہ بولے کہ وزارت داخلہ کا کام نیکٹا کے معاملات کی مانیٹرنگ کرنا ہے۔ وزارت کا کردار تبدیل ہوچکاہے تاہم ان کا ایک کردار نیکٹا میں پرنسپل اکائونٹنگ آفیسر کا ہے ۔

ان سے جب پوچھا گیا کہ نیکٹا کے ایگزیکٹیو کمیٹی کے ممبر ہونے کے ناطے وہ بتاسکتے ہیں کہ نیکٹا کے ایگزیکٹو کمیٹی کے کتنے اجلاس منعقد ہوئے ہیں تو وہ بولے کہ جب سے وہ اس پوزیشن پر ہے نیکٹا کے ایگزیکٹیو کمیٹی کا کوئی اجلاس نہیں ہوا ۔ کمیشن نے استفسار کیا کہ ان کی ذاتی رائے اس سلسلے میں کیا ہے تو وفاقی وزیر داخلہ عارف احمد خان بولے کہ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس ہوتے تو اس سے نیکٹا کی کارکردگی میں بہتری ضرورآتی ۔

کمیشن نے سوال کیا کہ ایگزیکٹیو کمیٹی کا سیکرٹری کون ہی تو جواب دیا گیا کہ ایک سال سے نیشنل کوآرڈنیٹر ہے مگر انہوںنے کوئی اجلاس طلب نہیں کیا جس پر کمیشن نے پوچھا کہ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریو ںمیں ناکام ہوئے ہیں جس پر سیکرٹری داخلہ بولے کہ میری ذاتی خیال یہ ہے کہ وہ کوشش کرتے ہیں لیکن کمیٹی کے چیئرمین وزیر داخلہ مصروف رہتے ہیں جس پر جج وفاقی سیکرٹری داخلہ سے استفسار کیا کہ کیا دہشت گردی سے بڑھ کر وفاقی وزیر داخلہ کے لئے کوئی اور کام ہوسکتاہے جس پر انہو ںنے کہا کہ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ دہشت گردی سے بڑھ کر کوئی مسئلہ نہیں ۔

اس موقع پر محمد عامر راناایڈووکیٹ نے کہا کہ میرے خیال میں ذمہ داری اب بھی وفاقی حکومت کے ذمہ ہے اس پر کمیشن کے جج نے کہا کہ کیا یہ سچ ہے کہ وفاقی محکمہ داخلہ درست طور پر اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھا رہا جس پروفا قی سیکرٹری داخلہ بولے کہ میری نظر میں امن وامان کے قیام کی بنیادی ذمہ داری حکومت بلوچستان کی تھی اس لئے اس پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

اس موقع پر جب محمد عامر رانا ایڈووکیٹ کی جانب سے کمیشن کے جج نے وفاقی سیکرٹری داخلہ سے سوال کیا کہ وزارت داخلہ کے انڈر کتنے ایسے ادارے ہیں جو صوبوںمیں خدمات انجام دے رہے ہیں جس پر وفاقی سیکرٹری داخلہ بولے کہ پنجاب رینجرز ٬ سندھ رینجرز ٬ فرنٹیر کور کانسٹیبلری ٬ ایف سی ٬ کوسٹ گارڈ٬ گلگت بلتستان سکائوٹس اور ایف آئی اے ان کے اندڑ کام کررہے ہیں اس موقع پر کمیشن نے وفاقی سیکرٹری داخلہ سے سوال کیا کہ کیا وہ بتاسکتے ہیںکہ ایف سی کو بلوچستان میں پولیس کے اختیارات حاصل ہیں تو پہلے پہل انہوںنے نفی میں جواب دیا تاہم بعد ازاں انہوںنے کہاکہ اسے موقع دیاجائے تو وہ اس سلسلے میں تحریری رپورٹ دیںگے جس پر کمیشن نے اسے پیر تک کے لئے رپورٹ جمع کرانے کا موقع دیا اور ہدایت کی کہ وہ اس سلسلے میں قوانین نوٹیفکیشن وغیرہ بھی دیں ۔

اس موقع پر وفاقی سیکرٹری داخلہ نے کمیشن کو بتایا کہ ایف سی صوبائی حکومت کی ہدایات پر کام کررہی ہے اس موقع پر سینئر وکیل ریاض ایڈووکیٹ کی جانب سے کمیشن نے سیکرٹری داخلہ سے استفسار کیا کہ بلوچستان میں چیف سیکرٹری ٬ آئی جی پولیس اور آئی جی ایف سی کی تعیناتی وفاقی حکومت کرتی ہے وہ کس طرح سیکورٹی اور دیگر ذمہ داریوں سے مبرا ہوسکتی ہے تو وفاقی سیکرٹری داخلہ بولے کہ میری نظر میں صوبائی حکومت معنی وزیراعلیٰ اور اس کی کابینہ ہے چیف سیکرٹری نہیں ۔

اس موقع پر سیکرٹری داخلہ سے سوال کیا گیا کہ انہیں چیف سیکرٹری ٬ آئی جی پولیس اور آئی جی ایف سی کی جانب سے 8 اگست کے کوئٹہ کے واقعات سے متعلق کوئی رپورٹ بھجوائی گئی ہے تو وہ بولے کہ آئی جی پولیس نے اسے رپورٹ بھجوادی ہے کمیشن اسے موقع دے تو وہ اسے فراہم کرسکتے ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ واقعات کے بعد کیا اقدامات کئے جارہے ہیں کیا وزارت داخلہ کا اس سلسلے میں کوئی کردار ہے اگر ہے تو کیا کردار ہے اس پر وفاقی سیکرٹری داخلہ بولے کہ وزارت داخلہ کا آپریشنل کوئی کردار نہیں تاہم اس کیس میں ہم نے آئی جی پولیس بلوچستان کو متعدد بار مدد کی آفر کی ہے پولیس ہم سے سول ہسپتا ل سی سی ٹی وی فوٹیج کے متعلق مدد مانگ رہی تھی جسے ہم نے نادرا کو بھیجا تاہم نادرا اس سلسلے میں زیادہ مدد فراہم نہیں کرسکا اس پر کمیشن کے جج نے استفسار کیا کہ نادرا کے بعد انٹرپول یا کسی اور بین الاقوامی ادارے سے بات کی گئی ہے تو وفاقی سیکرٹری داخلہ بولے نہیںجس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیوںنہیں تو وہ بولے کہ صوبائی حکومت نے ان سے اس سلسلے میں نہیںکہا ۔

انکوائری کمیشن کی سماعت کے دورا ن فارنزک کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب پر کمیشن کے جج نے سخت اظہار ناپسندیدگی کیا اور کہاکہ ہر ایک مصروف ہے مگر کرتا کچھ بھی نہیں کا جملہ یہاں بالکل درست آتا ہے ۔ 17 ہزار دہشت گردی کے کیسز ہوئے مگر ہم ابھی تک ایسے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس موقع پر شہک بلوچ سے پوچھا گیا کہ حکومت بلوچستان کو انٹرنیشنل فارنزک پر کوئی اعتراض ہے کیا تو وہ بولے کہ اس سلسلے میں ہم سے کسی نے پوچھا نہیں جبکہ وفاقی سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ وہ صوبائی حکومت سے مشاورت کرکے فارنزک کے حوالے سے اقدامات اٹھائیں گے ۔

اس موقع پر سید نذیر آغا کی جانب سے دیا گیا سوال کمیشن کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وفاقی سیکرٹری داخلہ سے پوچھا اور کہاکہ کیا ان کے علم میں ہے کہ کالعدم تنظیم کے ایف ایم چینلز چل رہے ہیں تو انہوںنے اثبات میں جواب دیا اور کہاکہ اس سلسلے میں اقدامات جاری ہیں اب تک 937URLSلینکس اور 10ویب سائٹس کوبلا ک کیا جا چکا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بہت سارا ممنوعہ لیٹریچر بھی پکڑا گیا ہے ۔

سوشل میڈیا پر منافرت پھیلانے والے ویب سائٹس ٬ فیس بک اور ٹویٹر اکائونٹس سے متعلق سوال کیا گیا تو وہ بولے کہ فیس بک اور ٹویٹر کے آفسز ملک سے باہر ہیں تاہم جن ویب سائٹس کو ملک کے اندر بنایا گیاہے انہیں روکا جاچکا ہے اس موقع پر سینئر وکیل ریاض احمد ایڈووکیٹ کا دیا گیا سوال وفاقی سیکرٹری داخلہ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ آئی جی بلوچستان کے فراہم کردہ رپورٹ کو پڑھ چکے ہیں تو انہوںنے کہا کہ وہ ایک تفصیلی رپورٹ ہے جسے وہ دیکھیں گے ۔

اس موقع پر کمیشن کی جانب سے وفاقی سیکرٹری داخلہ سے پوچھا گیا کہ جماعت الحرار اور لشکر جھنگوی العالمی کو کالعدم کیوں قرار نہیں دیا گیا تو سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تاہم وہ ذاتی طور پر مذکورہ تنظیموں کے پابندی کے حق میں ہیں۔ انہوںنے کہا کہ خفیہ ایجنسیوں سے اس سلسلے میں مشاورت ضروری ہے کیونکہ انہیں زیادہ پتہ ہوتا ہے ۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ ڈی جی آئی بی کس کو رپورٹ کرتے ہیں تو انہوں نے کہاکہ براہ راست وزیراعظم کو ہی رپورٹ کرتے ہیں ۔ بعد ازاں کمیشن کی سماعت کو جمعہ تک کے لئے ملتوی کردیا گیا ۔