سپریم کورٹ٬ نیب کی جانب سے پلی با رگین قانون کے تحت ملزمان کورہاکرنے کے اختیارات کا استعمال رو کنے سے متعلق مقدمہ میں تحریری حکم جاری

بدھ 26 اکتوبر 2016 20:52

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 26 اکتوبر2016ء) سپریم کورٹ نے نیب کی جانب سے پلی با رگین قانون کے تحت ملزمان کورہاکرنے کے اختیارات کا استعمال رو کنے سے متعلق مقدمہ میں تحریری حکم جا ری کرتے ہوئے واضح کیاہے کہ ریکارڈ سے ظاہر ہے کہ بدعنوانی میں ملوث سرکاری افسران / ملازمین کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی جوبدقسمتی کے سواکچھ نہیں۔

بدھ کوجاری پانچ صفات پر مشتمل فیصلہ جسٹس امیر ہانی مسلم نے تحریر کیا ہے جس میں اس امرپرافسوس کااظہارکیاگیاہے کہ کرپشن میں ملوث سرکاری افسران اور ملازمین کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوسکی٬ فیصلے میں واضح کیاگیاہے کہ آئندہ چیئرمین نیب یا ادارے کے دیگربااختیار افسران کرپشن میں ملوث افسران یاملازمین کی جانب سے رقومات کی رضاکارانہ واپسی کی صورت میں نیب آرڈیننس کے سیکشن 25 پر عملدرآمد نہیں کرینگے٬ جو شخص کرپشن کرتے ہوئے پکڑا جائے٬ وہ رضاکارانہ طور پرکچھ رقم واپس کر نے پر کوئی بھی سرکاری عہدہ نہیں رکھ سکتا٬ رضاکارانہ طور پر رقم کی واپسی مس کنڈکٹ کے زمرے میں آتی ہے٬ فیصلے میں کہاگیاہے کہ پلی بارگین کے حوالے سے جمع کردہ نیب رپورٹ کے مطابق سیکشن25 کے تحت سینکڑوں سرکاری ملازمین اور سول افراد نے رقوم واپس کی ہیں جس کے بعد وہ ابھی تک اپنے عہدو ں پر براجماں ہیں٬ ان کیخلاف کوئی ایکشن نہ لینے کے باعث کر پشن میں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے٬ اس سلسلے میں محکموں کے حکام نے نیب کو راستہ دیا٬ اس طرح انہوں نے کر پشن میں اضافہ کرنے کی جانب معا ونت کی ہے٬ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہاہے کہ یہ ایک خطرناک صورتحال ہے کہ نیب کی جانب سے ملزمان سے قسطوں میں یا یکمشت وصول کردہ رقوم متعلقہ حکومتی محکموں میں جمع نہیں کرائی جاتی بلکہ قواعد کی آڑ لے کر یہ رقوم نیب افسران کو نوازنے کیلئے رکھی جاتی ہیں۔

(جاری ہے)

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے نیب کے پلی با رگین قانون کیخلاف از خود نو ٹس قانون کے تحت کاروائی شروع کی تھی اور چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت مکمل کرنے کے بعد گزشتہ دنوں مختصر فیصلہ سنایا تھا جس میں نیب کو حکم دیا گیاتھاکہ گذشتہ 10 سال کے دوران نیب کی جانب سے پلی بارگین قانون کے تحت وصول کردہ رقوم جن سرکاری کھاتوں میں جمع کرائی گئیں ان کی تفصیلات5 نومبر تک عدالت میں جمع کرائی جائیں۔

عدالت نے اٹارنی جنرل اور صوبائی ایڈووکیٹ جرنلز کو بھی ہدایت کی کہ وہ نیب کے جمع کرائے گئے جواب کی نقول اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور صوبائی چیف سیکرٹریز کو فراہم کریں۔ عدالت نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور چیف سیکرٹریز کو بھی ہدایت کی کہ کرپشن میں ملوث وہ سرکاری افسران یاملازمین جنہوں نے رضاکارانہ طور پر رقوم واپس کی ہیں ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کر کے آئندہ سماعت سے قبل تحریری رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جائے۔ اس اہم کیس کی مزید سماعت 7 نومبر کو ہوگی۔

متعلقہ عنوان :