رہائشی علاقوں میں کمرشل سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جاسکتی٬ سپریم کورٹ

بدھ 26 اکتوبر 2016 20:35

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 26 اکتوبر2016ء) سپریم کورٹ نے دارالحکومت اسلام آباد میں بااثرافراد کی جانب سے قائم غیرقانونی رکاوٹیں کھڑی کرنے اور رہائشی علاقوں کے کمرشل استعمال سے متعلق مقدمہ میں تعلیمی اداروںکی منتقلی کیلئے تین سال کاٹائم فریم دینے کی استدعامستردکرتے ہوئے کہاہے کہ رہائشی علاقوں میں کمرشل سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جاسکتی٬ جن لوگوں نے رہائشی علاقوں میں سکول قائم کئے ہیں ان کوپہلے سوچناچاہئے تھا٬ سی ڈی اے اس حوالے سے ایک ماہ میں پیشرفت کی رپورٹ پیش کرے اور رکاوٹ ڈالنے والوں پرجرمانے عائدکئے جائیں۔

بدھ کوچیف جسٹس انورظہیرجمالی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پرسی ڈی اے کی جانب سے ایڈووکیٹ شاہد حامد نے پیش ہوکرموقف اپنایاکہ جس وقت رہائشی علاقوں سے کمرشل سرگرمیاں ختم کرنے کاآغازکیاگیا اس وقت 1695رہائشی عمارتوں کو کمرشل سرگرمیو ں کیلئے استعمال کیاجارہاتھا تاہم اب یہ تعداد گھٹ کر651 رہ گئی ہے جن میں 359 سکول٬ 90ہاسٹل اور ایک سوگیسٹ ہائوسزشامل ہیںجبکہ سکولوں کو خالی کروانے کیلئے 3سال کا ٹائم فریم ورک تیار کرلیا گیا ہے جس کے تحت مرحلہ وار کام کیا جائے گا۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے ان کی تجویزمسترد کرتے ہوئے کہاکہ دارالحکومت میں اس وقت تک غیرقانونی کمرشل سرگرمیاں ختم نہیں ہوں گی جب تک ان کیخلاف سخت ایکشن نہ لیاجائے٬ سی ڈی اے کو موثر کارروائی کرنا پڑے گی٬ سی ڈی اے کمرشل استعمال والی پراپرٹی کو واپس رہائشی پراپرٹی میںتبدل کرنے کیلئے خلاف ورزی کرنے والوں پر جرمانے عائد کرے٬ یہاں معمول بن گیاہے کہ اگرسی ڈی اے رہائشی مکانات کوکمرشل سرگرمیوں کیلئے بروئے کارلانے والوں کیخلاف ایکشن لیتی ہے تو لوگ سینکڑوں سکول بچوں کے ہمراہ گلیوں میں نکل کراحتجاج کرتے ہیں٬ رائی کوپہاڑ بنا کراحتجاج کرنا معمول بن گیا ہے۔

بعد ازاں عدالت نے رہائشی علاقوں سے سکولوں کودوسرے مقامات پرمنتقلی کی استدعامسترد کرتے ہوئے کہاکہ کیا عدالت قانون پرعملدرآمد کیلئے اب تین سال انتظارکرے گی۔ بعد ازاں مزید سماعت دسمبرکے پہلے ہفتے تک کیلئے ملتوی کردی گئی۔

متعلقہ عنوان :