مسلمانوں میں زوال کے اسباب٬ فرقہ واریت٬ قومیت پرستی٬ ذات پات کا نظام اور دین سے دوری ہے٬ صاحبزادہ سلطان احمد علی

بدھ 26 اکتوبر 2016 17:33

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 26 اکتوبر2016ء) چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی نے کہا ہے کہ مسلمانوں میں زوال کے اسباب٬ فرقہ واریت ٬ قومیت پرستی ٬ ذات پات کا نظام اور دین سے دوری ہے٬ لہٰذا اقبال نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فرقہ واریت کو چھوڑ کر ملی یکجہتی٬ قومیت پرستی سے الگ ہو کر اتحاد امت٬ ذات پات کے نظام سے دستبردار ہو کر مساوات کی خواہش کو اپنے اندر پیدا کرنا ہو گا جس کے بعد ہی امن قائم ہو گا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں ’’ اقبال کا پیغامِ محبت و امن : نوجوانوں کے نام‘‘ کے عنوان سے خصوصی لیکچر میں کیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ا قبال نے ہر جگہ نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہو ئے بات کی ہے اور ان کی امیدوں کا مرکز اور محور اس وقت بھی نوجوان تھے اور آج بھی نوجوان ہیں - اقبال خوابید ہ ملت میں ہوشیار اور بیدار تھے جس کی وجہ سے اپنے افکار کے باعث انگریز اور گاندھی سامراج کو شکست دی- اقبال ہمیں تواتر سے اسلاف کی طرف بلاتے ہیں اور علم و ہنر کا راستہ اپنانے کی دعوت دیتے ہیں٬ وہ چونکہ خود بھی علم دوست تھے لہذا ملائیت٬ ملوکیت اور رسمی خانقائیت کے سخت ناقد اور مخالف تھے٬ اس لئے اقبال نوجوانوں کو بار بار تن آسانی اور تساہل پسندی سے جان چھڑا کر سخت کوشی اور جہد مسلسل کی ترغیب دیتے ہیں٬ کیونکہ جس قوم کے جوان تن آسان ہو جائیں وہ قوم تنزلی کا شکار ہو جاتی ہی- تنزلی سے بچنے اور ترقی کرنے کے لئے جہاں محنت ضروری ہے وہاں اتحاد کا ہونا بھی ضروری ہے٬ اسلامی شناخت کو مقدم کرنے میں مددگار ہے ٬اگر اس اسلامی شناخت کوحاصل کرنا ہے تو اسلاف کی طرف لوٹنا ہو گا ان کے طریق پر عمل کرنے سے ااختلافات ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ٬ بس شرط یہ ہے کہ ہم میں نفرت نہ ہو بلکہ احترام اور برداشت کرنے کا حوصلہ اور ہمت ہو٬ اس سے باہمی ہمت اور یگانگت میں اضافہ ہو گا- انہوں نے کہا کہ آج سارک کی بات کی جاتی ہے٬ آسیان کی بات کی جاتی ہے لیکن ایشین یونین کی بات کیوں نہیں کی جاتی جس سے مغربی استعمار کو روکا جائے٬ اقبال جوانوں سے یہ امید کرتا ہے کہ جوان مغربی استعمار کو شکست دیں گے جس سے امن کے قیام کے لئے راہ ہموار ہو گی ٬ انہوں نے کہا کہ امن کے قیام کے لئے جو طریقے ہم نے اپنا رکھے ہیں یہ ظاہری طریقے ہیں جبکہ محبت اور امن کیلئے سب سے ضروری اندرونی اور باطنی تربیت ہے جس سے امن کے قیام کیلئے آرزو جاگتی ہے٬ امن کا قیام آرزو کا محتاج ہے٬ جیسے ہماری کامیابی کا راآ ٓرزو کا ہونا ہے اسی طرح قیام امن بھی آرزو سے ہی ممکن ہے٬ ہم اگر امن چاہتے ہیں تو انفرادی سطح سے آغاز کر کے اجتماعی سطح تک اپنے باطن کو آرزو کے پانی سے نم کرنا ہو گا اور یہ نمی اقبال کے ہاں قران و سنت سے رشتہ جوڑ کر ہی ملتی ہی- لیکچر میں طلباء کے علاوہ فکیلٹی ممبر نے بھی بھر پور انداز میں شرکت کی۔