تعلیمی و تحقیقی اداروں کے سربراہوں سمیت اعلیٰ انتظامی افسران نے فیصل آباد کو درجنوں تعلیمی‘ سائنسی و تحقیقاتی اداروں کی موجودگی کی بنیاد پر سائنس سٹی قرار دینے کے تجویز سے اتفاق کرلیا

منگل 25 اکتوبر 2016 22:40

فیصل آباد ۔25 اکتوبر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 اکتوبر2016ء) فیصل آباد کے تعلیمی و تحقیقی اداروں کے سربراہوں سمیت اعلیٰ انتظامی افسران نے فیصل آباد کو درجنوں تعلیمی‘ سائنسی و تحقیقاتی اداروں کی موجودگی کی بنیاد پر سائنس سٹی قرار دینے کے تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے تمام اداروں میں موجود سائنسی لیبارٹریز‘ تحقیقی مواد‘ تحقیقاتی مقالہ جات اور دوسری سہولیات کو ایک دوسرے کیلئے دستیاب کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے نیو سینٹ ہا ل میں فیصل آباد ریسرچ فورم کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کمشنر فیصل آباد ڈویژن مومن آغا نے شہر کیلئے مجوزہ نئی شناخت کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ اس سلسلہ میں تجاویز کو باقاعدہ طور پر حکومتی منظوری کیلئے بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ شہر میں درجنوں تعلیمی و تحقیقی اور ہزاروں پی ایچ ڈیزکی موجودگی بلاشبہ ایک امتیازی حیثیت کی حامل ہے لہٰذا وہ چاہیں گے کہ تمام اداروں میں موجود سہولیا ت اور باصلاحیت افرادی قوت اس نئے پلیٹ فارم سے معاشرے کی بہتری کیلئے مل جل کر کام کریں ۔

انہوں نے کہا کہ مجوزہ منصوبے پر پیش رفت کیلئے ضروری ہے کہ ریسرچ فورم میں مختلف ورکنگ گروپس تشکیل دے کر اہداف کا تعین کر تے ہوئے حکمت عملی طے کی جائے تاکہ مکمل یکسوئی کے آگے بڑھا جائے۔ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر اقراراحمد خاں نے استقبالیہ خطاب میں فورم کے ذریعے اب تک کی جانیوالی پیش رفت سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ فورم کے ذریعے چند برس قبل یونیورسٹی میں بی ایس سی ہیومن نیوٹریشن و ڈائی ٹیٹکس پروگرام شروع کیا جانیوالا پروگرام بہت زیادہ مقبول ہوا جس میں طلبہ کو کلینیکل تربیت بھی فراہم کی جا رہی ہے یہی وجہ ہے کہ اب یہ پروگرام15ملکی جامعات میں کاپی کیا جا رہا ہے ۔

انہوں نے بتایا کہ ہرچند لاہور میں نالج پارک 6ہزار ایکڑ اراضی پر قائم کیا جائیگا تاہم فیصل آباد میں درجنوں سائنسی اداروں کی موجودگی کی وجہ سے وہ تمام سہولیات ‘سائنسی سرگرمیاں اور ماحول پہلے سے موجود ہیں جو لاہور کے نالج پارک میں 3 دہائیوں کے بعد وقوع پذیر ہوگا لہٰذا ضروری ہے کہ حکومتی سطح پر فیصل آباد کو نالج کوری ڈوریا سائنس سٹی کے طور پر علیحدہ شناخت دینے میں زیادہ تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ ہرچند شہر میں ڈگریاں عطاء کرنیوالے اداروں کی کمی نہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں میں وہ ہنر اور صلاحیت منتقل کی جائے جسے بروئے کار لاتے ہوئے وہ خودروزگار کے قابل ہوسکیں اس مقصد کیلئے یونیورسٹی کا کمیونٹی کالج اہم بنیاد ثابت ہوسکتا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہ داری کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس میں استعمال کیلئے تمام خام مال پاکستان میں موجود ہے لیکن اس بڑے منصوبے کیلئے تمام افرادی قوت چین فراہم کر رہا ہے لہٰذا ضرورت ہے کہ اپنے نوجوانوں کیلئے ان کے ہم پلہ ہنرمند بنایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ مجوزہ سائنس سٹی کے پلیٹ فارم سے شہر کے مختلف سائنس اداروں کے مابین سائنسی لیبارٹریوں ‘سائنسی آلات ‘ تحقیقی پیش رفت سے یکساں فائدہ اُٹھانے کی راہ بھی نکالی جانی چاہئے۔ڈاکٹر اقراراحمد خاں نے ون ہیلتھ پروگرام کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس کے ذریعے عوام کو نیوٹریشن ضروریات سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ بیماریوں سے بچائو کیلئے تیارکیا جائے گاتاکہ ہسپتالوں میں مریضوں کے دبائو میں کمی لائی جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ صوبے میں 10ملین ٹن گندم‘ 3ملین ٹن چاول‘ 2ملین ٹن اضافی مکئی اور آلودستیاب ہیںاس کے باوجود پوشیدہ بھوک کی وجہ سے 23فیصد لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ بھارتی پنجاب کی کوئی فصل یا ورائٹی پاکستان سے زیادہ پیداوار کی حامل نہیں تاہم بھارتی پنجاب میں زرعی شعبہ پر دی جانیوالی سبسڈی پاکستان کے چاروں صوبوں کے زرعی بجٹ سے زیادہ ہے جس کی وجہ سے ان کی پیداواری لاگت میں کمی اور بہتر مارکیٹنگ سے کسان کی حالت ہم سے بہتر ہے۔

انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی ماہرین گندم کے ہائی بریڈ بیج کی تیاری میں کامیاب ہوگئے تو اس کی فی ایکڑ پیداوار میں دوگنا اضافہ ممکن ہوسکتا ہے جبکہ مختصر عرصہ میں تیار ہونیوالی چھوٹے قدکاٹھ کی حامل کپاس اور سرسوں کی ایسی ورائٹیاں متعارف کروائی جا رہی ہیں جن کی وجہ سے ملکی معیشت میں خاطر خواہ بہتری پیدا ہونے کا امکان ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی ماہرین نے یونی گولڈ مرغیوں کی ایسی قسم متعارف کروائی ہے جو سال میں 210تک انڈے دینے کی صلاحیت رکھتی ہے اور ان مرغیوں کو پنجاب حکومت دیہی پولٹری کے فروغ میں استعمال کر رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی سائنس دانوں نے آم کی درجنوں ورائٹیوں کا ڈیٹا بیس تیار کرکے ایسی ورائٹیوں کی نشاندہی کی ہے جو مئی سے اکتوبر تک پیداوار کی حامل ہوسکتی ہیں۔ پاکستا ن میں بہترین منصوبہ ساز موجود ہیں تاہم ان پر کما حقہ عملدرآمد کی راہ میں مشکلات کی وجہ سے اہداف پوری طرح حاصل نہیں ہورہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے 4ارب روپے کا ٹیکنالوجی ڈویلپمنٹ فنڈ قائم کرکے سائنس دانوں سے تجاویز طلب کی ہیں جس کے ذریعے ٹیکنالوجی کا خریداریا استعمال کنندہ بھی پروگرام کا حصہ ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ شہر کی جامعات میں ہر سال تحقیقی مقالہ کی نقدو نظر کے بعد ہزاروں گریجوایٹ مارکیٹ میں آ رہے ہیں لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی تحقیقات کو معاشرے کی بہتری کیلئے بروئے کار لانے کیلئے کوئی پلیٹ فارم مہیا کیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی میں مکئی کی تین ہائی بریڈ اقسام سامنے لا رہے ہیں جو غیرمعمولی پیداواری صلاحیت کی حامل ہونگی جبکہ باجرہ سے زیادہ چینی پیداکرنے کی راہ بھی نکالی جا رہی ہے۔

نب جی کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر شاہد منصور نے کہا کہ ماضی قریب میں شہربھرکی شاہرات کو ادیبوں‘ دانشوروں اور انتظامی افسران کے ناموں سے منسوب کیا گیا ہے تاہم معیشت کا رخ تبدیل کرتے ہوئے لاکھوں افراد کی خوراک اور روزگار کاباعث بننے والے مرحوم سائنس دانوں کو بھی اس فہرست کا حصہ ہونا چاہئے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے ادارہ نے بی ٹی کاٹن کی 13ورائٹیاں متعارف کروائی ہیں جبکہ نب جی میں موجود ہیپاٹائٹس سکریننگ کی سہولیات سے پورے شہرکی سکرینگ کی جا سکتی ہے ۔

جی سی یونیورسٹی کے وائس چانسلرڈاکٹر محمد علی نے فیصل آباد کو نالج سٹی یا سائنس سٹی قرار دینے کی تجویز کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اس اقدام پر حکومت کا ایک روپیہ بھی خرچ نہیں آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں فوری طو رپر اس کا سیکرٹریٹ قائم کرکے مشاورتی کمیٹی ترتیب دے دینی چاہئے تاکہ اس تجویز کومزید توانا کیا جا سکے۔ ماہرامراض دل ڈاکٹر نواز علی خاں نے بتایاکہ امریکہ میں کینسرطبعی اموات کا دوسرا بڑا سبب ہے جبکہ پاکستان میں نصف مرد اور ایک تہائی خواتین پوری زندگی کے دوران کینسرکا شکار ہونے کا امکان موجود ہے ۔

انہوں نے بتایا کہ امریکہ میں ہر سال کینسرسے متاثرہ مریضوں پر 157 ارب ڈالر خرچ ہورہے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ اپنے روزمرہ معمول میں ورزش‘ پوری نیندکے ساتھ ساتھ تمباکونوشی سے مکمل پرہیزکیا جائے۔

متعلقہ عنوان :