بین الاقوامی برادری گونگی ٬ بہری اور ظالم ہے٬ کشمیر کے حل کے لئے ذیادہ امید نہ لگائیں ‘ خورشید محمود قصوری

امن صرف خواہش سے نہیں آتا اس کے لئے طاقتور ہونا پڑتا ہے٬کشمیر میں حقیقی امن جبھی آسکتا ہے جب تینوں یعنی کشمیری عوام٬ پاکستان اور بھارت کسی بھی حل پر متفق ہوں گے٬جنگ مسئلہ کشمیر کا حل نہیں ہے اور اس مسلے کو صرف بات چیت کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے سب سے پہلے کشمیریوں کی جان و مال کو تحفظ ملنا چاہئے اس کے بعد معاملہ آگے بڑھنا چاہئے‘پنجاب یونیورسٹی میں مسئلہ کشمیر پر سیمینارسے خطاب

منگل 25 اکتوبر 2016 21:40

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 25 اکتوبر2016ء) سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے کہاہے کہ بین الاقوامی برادری گونگی٬ بہری اور ظالم ہے٬ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اس سے بہت ذیادہ امید یں وابستہ نہ رکھیں تاہم بین الاقوامی برادری سے اپیل ضرور کریں٬بین الاقوامی طاقتیں صرف اسی مسئلے کو حل کرتی ہیں جہاں ان کا مفاد ہوتا ہے تاہم ہمیں بین الاقوامی طاقتوں کو مسئلہ کشمیر سے آگاہ رکھنا چاہئے اور اس کے لئے ہمیں اپنی ڈپلومیسی پر خصوصی توجہ دینی چاہئے٬بھارت کشمیریوں کی جدوجہد کو دبا نہیں سکتا۔

ان خیالات کااظہار انہوںنے پنجاب یونیورسٹی پاکستان سٹڈی سنٹر کے زیر اہتمام الرازی ہال میں’’پاک بھار ت تعلقات اور کشمیر تنازع‘‘ کے موضوع پر منعقدہ قومی سیمینار میں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

(جاری ہے)

اس موقع پر پنجاب یونیورسٹی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران ٬ پروفیسر ایمریطس ڈاکٹر حسن عسکری رضوی٬ سابق سفیر جاوید حسین ٬ ڈائریکٹر پاکستان سٹڈی سنٹر پروفیسر ڈاکٹر مسرت عابد٬ کشمیر صحافی مرتضیٰ شبلی٬ فیکلٹی ممبران اور طلبائو طالبات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے خورشید محمود قصوری نے کہا کہ خورشید محمود قصوری نے کہا کہ امن صرف خواہش سے نہیں آتا بلکہ اس کے لئے طاقتور ہونا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں حقیقی امن جبھی آسکتا ہے جب تینوں یعنی کشمیری عوام٬ پاکستان اور بھارت کسی بھی حل پر متفق ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ مسئلہ کشمیر کا حل نہیں ہے اور اس مسلے کو صرف بات چیت کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے پیش گوئی کی تھی کہ مسئلہ کشمیر پر نریندر مودی کو زمینی حقائق کے باعث بات چیت پر ہی آنا پڑے گا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم مسئلہ کشمیر کے حل کے قریب پہنچ گئے تھے اور میری کتاب میں کی اس بات کی تاحال کسی نے بھی تردید نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے کشمیریوں کی جان و مال کو تحفظ ملنا چاہئے اس کے بعد معاملہ آگے بڑھنا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ سیاچن کو امن کا پہاڑ قرار دے دیں۔ اپنے خطاب میں ڈاکٹر مجاہد کامران نے کہا ہے کہ بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے ہمیں جنرل ضیاء الحق جیسا رویہ اپنانے کی ضرورت ہے جیسا کہ انہوں نے کرکٹ ڈپلومیسی کے دروان اپنایا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے پاکستان میںانتشار اور سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لئے 30کروڑ ڈالر کی خطیر رقم سے اپنے حساس ادارے میں چار ڈیسک قائم کئے ہیں۔

جن میں سے ایک ڈیسک کا کام بلوچستان اور دیگر حصوں میں دہشت گردی کو فروغ دینا٬ دوسرے ڈیسک کا کام نفسیاتی جنگ لڑنا بالخصوص فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا٬ تیسرے ڈیسک کا کام سیاستدانوں اور میڈیا کو خریدنا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کے مسلمانوں کے قتل میں ملوث ہونے کے شواہد امریکہ کے پاس تھے اور اسی وجہ سے انہیں امریکہ کا ویزہ نہیں دیا گیا تھا۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ایمریطس ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کی موجودہ صورتحال میں ہمیں نوجوان بھارتی مظالم کے خلاف ذیادہ آگے نظر آ رہے ہیں اور ان کا جوش و ولولہ ذیادہ نظر آ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لئے دو ایشوز اہم ہیں ۔ ایک تو پاکستان کو کوشش کرنی چاہئے کہ کشمیر میں بھارت نے جو ریاستی جبروتشدد کا بازار گرم کر رکھا ہے اس کے فوری خاتمے کا مطالبہ کرنا چاہئے اور دوسرا کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لئے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کے لئے کوششیں کرنی چاہئیں۔

ڈاکٹر پیٹر نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں مسئلہ حل نہ کر سکیںکشمیر میں کم از کم فوج تعینات ہونی چاہئے اور استصوابِ رائے ہونا چاہئے تاہم استصوابِ رائے تب تک ممکن نہیں جب تک علاقے اقوامِ متحدہ کے کنٹرول میں نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کو بنیادی حقوق یقینی طورپر ملنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کی درمیان مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بات چیت کی سمت متعین ہونی چاہئے سابق سفیر جاوید احمد نے کہا کہ پاک بھارت تعلقات میں مسئلہ کشمیر کا کردار بنیادی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت خطے میں برتری اور اپنی ریاست کاپھیلاو٬ْ چاہتا ہے ہمارے پالیسی میکرز کو بھارتی عزائم سامنے رکھ کر حکمت عملی تیار کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اپنے مقاصد سے پیچھے نہیں ہٹے گا اور اس کے لئے طاقت اور معیشت کا استعمال کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت پاکستان کو معاشی ترقی کی راہ میں پیچھے دھکیلنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایٹم بم کے باعث بھارت پاکستان کے ساتھ بھرپور جنگ نہیں کر سکتا تاہم وہ ثقافتی اور معاشی محاذوں پر پاکستان پر حملہ کر رہا ہے اور پاکستان کے میڈیا کو بھی اس مقصد کے لئے استعمال کر رہا ہے۔

پاکستان سٹڈی سنٹر کی ڈائریکٹر ڈاکٹر مسرت عابد نے کہا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں مظلوم کشمیریوں کا قتل عام کر رہا ہے اور کشمیریوں کو بنیادی حقوق سے محروم کر رکھا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے تجزیہ کار مرتضیٰ شبلی نے کہا کہ بھارت نے بیدردی کے ساتھ ہمارے حقوق کی پامالی کی ہے اور استصواب رائے کے وعدے سے مکر گیا ہے۔ سیمنار کے بعد سوال جواب کی نشست منعقد کی گئی۔