سانحہ سول ہسپتال ٬ وزارت داخلہ کے اسپیشل سیکرٹری شعیب احمد صدیقی اور ڈائریکٹر جنرل نیکٹاشیخ عمر کے بیانات قلمبند

منگل 25 اکتوبر 2016 21:21

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 25 اکتوبر2016ء) سانحہ سول ہسپتال سے متعلق سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل جوڈیشل کمیشن کی جانب سے منگل کے روز وزارت داخلہ کے اسپیشل سیکرٹری شعیب احمد صدیقی اور ڈائریکٹر جنرل نیکٹاشیخ عمر کے بیانات قلمبند کئے گئے اور ہدا یت کی گئی کہ نیکٹا حکام گزشتہ ما لی سال کے بجٹ٬ایکسپرٹ کمیٹی سے متعلق نو ٹیفیکیشن سمیت دیگرکی فرا ہمی ممکن بنا ئے ۔

سما عت موقع پر بلوچستان کے وکلاء تنظیموں کے رہنمائوں سمیت دیگر بھی موجود تھے ۔ وزارت داخلہ کے اسپیشل سیکرٹری شعیب احمد صدیقی نے اپنا بیان قلمبند کرایا اور عدالت کے جانب سے پوچھے گئے مختلف سوالوں کے بھی انہوں نے جوابات دیئے جنہیں عدالت کی جانب سے ریکارڈ پر لایا گیا ۔

(جاری ہے)

نیکٹاکے ڈائریکٹر جنرل شیخ عمر نے عدالت میں پیش ہو کر بتایا کہ نیکٹا کو گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے 45 آفیسران اور گریڈ 16 یا اس سے نیچے کے ایک سو 25 ملازمین کی خدمات حاصل ہیں جبکہ نیکٹا کا بجٹ برائے سال 2016-17 ایک اعشاریہ 06 بلین ہے جس پر جوڈیشل کمیشن کے جج نے ان سے استفسار کیاکہ اس سے پہلے سال نیکٹا کے لئے کتنا بجٹ مختص کیاگیا تھا انہوںنے کہاکہ مجھے اس سلسلے میں علم نہیں اگر موقع دیا جائے تو اس سلسلے میںمعلومات فراہم کروں گا جس پر جوڈیشل کمیشن نے اسے موقع دیتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ اس سلسلے میںمعلومات فراہم کرے ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے نیکٹا کے لئے مختص بجٹ کے علاوہ اسے کسی بیرونی ملک یا ایجنسی سے کسی قسم کا ایڈیشنل بجٹ نہیں ملتا ۔ انہوں نے بتایا کہ جنوری 2001 سے 17 اکتوبر 2017 تک پاکستان میں دہشت گردی کے چھوٹے بڑے 17 ہزار 5 سو 3 واقعات رونما ہوئے جس میں 17 ہزار 3 سو 64 افراد جاں بحق جبکہ 42 ہزار سے زائد زخمی ہوئے اس موقع پر جوڈیشل کمیشن کے جج نے ڈی جی نیکٹا سے استفسار کیا کہ مالی نقصان کتنا ہوا تو انہوںنے کہا کہ اس سلسلے میںنیکٹانے اعداد و شمار اکھٹی نہیں کی لیکن وزارت خزانہ نے ضرور ایسا کیا ہوگا ۔

انہوںنے بتایا کہ 8 اگست کو کوئٹہ میں بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی ایڈووکیٹ کے قتل اور بعد ازاں سول ہسپتال میں بم دھماکے سے متعلق معلومات کے لئے انہوںنے وزارت داخلہ بلوچستان اور محکمہ پولیس بلوچستان کو نہ صرف لیٹرز بھیجے ہیںبلکہ ٹیلی فون پر بھی بات کی گئی ہے ان کی جانب سے عدالت کو فراہم کئے گئے معلومات پر جوڈیشل کمیشن کے سربراہ قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس طرح کے معلومات اور ڈیٹا سے بہتر تھا کہ آپ میڈیا کے سامنے بیٹھ کر لکھتے ۔

ڈی جی نیکٹا نے کائونٹر ایکسٹریم ازم پالیسی کے متعلق بتایا کہ اس پر کام جاری ہے جسے دستمبرتک مکمل کرلیا جائے گا ۔ انہوںنے نیشنل ایکشن پلان کے متعلق بھی جوڈیشل کمیشن کو بتایا اور کہا کہ اس کے نکات اور دیگر ویب سائیٹ پر موجود ہے اس میںدہشت گردی اور انتہاء پسندی دونوں کے متعلق اقدامات کا بھی ذکر ہے ۔ انہوں نے ایکسپرٹ کمیٹی کی تشکیل کا بھی کہا اور کہا کہ وہ اس کا نوٹیفکیشن بھی پیش کریں گے جس پر عدالت نے انہیں کہا کہ وہ اس وقت نوٹیفکیشن رکھتے ہیںتو انہوںنے جواب نفی میں دیا اور کہاکہ اسے موقع دیا جائے تو وہ نوٹیفکیشن پیش کریںگے ۔

اس موقع پرجوڈیشل کمیشن کی جانب سے ڈی جی نیکٹا سے جب ملک میںموجود کالعدم تنظیموںکی تفصیلات بارے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ کالعدم تنظیموں کی لسٹ نیکٹا کی ویب سائیٹ پر موجود ہے وہاں سے اسے حاصل کیا جاسکتا ہے جوڈیشل کمیشن نے ان سے سوال کیاکہ کوئٹہ میں 8 اگست کو ہونے والے واقعات کی ذمہ داری کس تنظیم نے قبول کی تھی جس پر نیکٹا کی جانب سے بتایا گیا کہ جماعت الحرار نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی اس سلسلے میں انہیںمیڈیا کے ذریعے معلومات ملی جس پر انہوںنے انٹیلی جنس اداروں کو مزید معلومات دینے کے لئے خط لکھاجس پر جوڈیشل کمیشن کے جج نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ بہت دور تو نہیں۔

اس موقع پر نیکٹا کی جانب سے عدالت کو اخباری بیان دکھایا گیاجس میں واقعات کی ذمہ داری سے متعلق معلومات تھیں جب سینئر وکیل رانا عامر نے مذکورہ بیان کمیشن کو پڑھ کر سنایا ۔ تو جوڈیشل کمیشن کے سربراہ قاضی فائز عیسیٰ بولے کہ بیان میں ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم کے ترجمان کی جانب سے ذمہ داری کے متعلق ای میل کا ذکرہے اس ای میل سے متعلق کسی قسم کی معلومات حاصل کی گئی ہے یا پھر اس کی کوئی کاپی موجود ہی تو نیکٹا کی جانب سے بتایا گیاکہ اس سلسلے میں انہوںنے کا م نہیں کیا کیونکہ یہ تحقیقاتی اداروںکی ذمہ داری ہے جو بلوچستان پولیس ہے ۔

اس پر جوڈیشل کمیشن کے جج نے ایک مرتبہ پھر استفسار کیاکہ بلوچستان پولیس سے اس سلسلے میں کسی قسم کی معلومات نیکٹا کوملی ہے تو ڈی جی نیکٹا بولے کہ بلوچستان پولیس نے اس ایک ٹویٹر میسج بھیجا ہے تو جوڈیشل کمیشن نے کہاکہ مذکورہ میسج کی کاپی فراہم کی جائے وہ ایسا نہ کرسکے تو کمیشن کے جج نے کہاکہ انہوںنے مذکورہ ٹویٹر میسج کی کاپی کیوں نہیں کی ۔

نیکٹا کی جانب سے عدالت سے مہلت طلب کی گئی اور کہا گیا کہ ٹویٹر میسج کی کاپی فراہم کردی جائے گی جس پر انہیں موقع فراہم کیا گیا ۔ سماعت کے دوران سینئر وکیل عامر رانا ایڈووکیٹ کی جانب سے کمیشن نے نیکٹا کے ڈی جی سے سوال کیا کہ کیا ان کے ریکارڈمیں 13 ستمبر 2016 کے دن دہشت گردی کے کسی واقعہ کی تفصیل ہے جس پر انہوںنے ریکارڈ چیک کرتے ہوئے کہاکہ نہیں تو عامر رانا ایڈووکیٹ نے کمیشن کو بتایاکہ مذکورہ تاریخ کو شکار پور کی ایک امام بارگاہ پر 8 اگست کو کوئٹہ واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے والی جماعت جماعت الحرار کی جانب سے حملہ کیا گیا تھا جس میں2 افراد جاںبحق جبکہ 10 کے قریب زخمی ہوئے تھے اس دوران ایک حملہ آور بھی گرفتار ہوا تھا اس پر کمیشن کے جج نے نیکٹا کے ڈی جی سے استفسار کیا کہ کیا انہیں شکار پور میں امام بارگاہ پرحملے کے متعلق کسی قسم کے معلومات ہیں تو وہ بولے کہ انہیں میڈیا کے ذریعے پتہ چلا تھا جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ سر میڈیا اورنیکٹامیںبڑا فرق ہے میں نیکٹا کے پلیٹ فارم سے کسی قسم کی معلومات سے متعلق استفسار کررہا ہوں ۔

شکار پور واقعہ میںجس تنظیم کے حملہ آور کی گرفتاری ظاہر کی گئی ہے اسی تنظیم نے 8 اگست کے کوئٹہ واقعات کی ذمہ داری قبول کی ہے کیا اس سلسلے میںنیکٹا نے کوئی کام کیاہے تو نیکٹا کے ڈی جی بولے کہ یہ تحقیقاتی اداروں کا کام ہے ۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ نیکٹا دہشت گردی کے واقعات سے متعلق معلومات کہاں سے لیتی ہے تو ڈی جی نیکٹابولے کہ ان کے لئے معلومات کے 2 اہم ذرائع میڈیا اور صوبائی سطح پر پولیس کے کنٹرول رومز ہیں ۔

شکار پور میں گرفتار حملہ آور اور دیگر کے متعلق وہ بتاسکتے ہیں تو انہوںنے بتایا کہ انہیں موقع دیا جائے تو وہ اس سلسلے میںبتائیں گے ۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ انہوںنے شکار پور حملے سے متعلق پولیس سے پوچھا تو وہ بولے یہ نیکٹا کا مینڈیٹ نہیں ۔ اس موقع پر منیر ایڈووکیٹ کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کو دیئے گئے سوال پر ڈی جی نیکٹا بولے کہ اسے اس سلسلے میںبھی علم نہیں تاہم وہ اس بابت بھی کمیشن کو معلومات دیں گے ۔

ان سے جب فورتھ شیڈول لسٹ کے متعلق استفسار کیا گیا تو وہ بولے کہ اس سلسلے میں صوبو ںکو نوٹیفکیشن کے ذریعے اختیارات دیئے گئے ہیں جسے وہ فراہم کریں گے فورتھ شیڈول میںشامل افراد کا وفاقی حکومت نے کوئی لسٹ جاری نہیں کیا۔ انکوائری کمیشن کو گزشتہ روز بتایا گیا کہ 2013 سے اب تک نیکٹا کے بورڈ آف ڈائریکٹرز اور ایگزیکٹیو کمیٹی کا اجلاس منعقد نہیں ہوسکا ہے ۔ بعد ازاں انکوائری کمیشن کی سماعت کو آج بدھ کی صبح تک کے لئے ملتوی کردیا گیا۔

متعلقہ عنوان :