شدت پسندوں کے حملے کا نشانہ بننے والے پولیس ٹریننگ کالج میں سکیورٹی کی صورتحال مثالی نہیں تھی ٬ْترجمان صوبائی حکومت

موجودہ خطرات کے پیش نظر سکیورٹی زیادہ سخت اور غیر معمولی ہونی چاہیے ٬ْترجمان کی بی بی سی سے گفتگو

منگل 25 اکتوبر 2016 13:57

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 اکتوبر2016ء) بلوچستان کی صوبائی حکومت کے ترجمان نے اعتراف کیا ہے کہ شدت پسندوں کے حملے کا نشانہ بننے والے پولیس ٹریننگ کالج میں سکیورٹی کی صورتحال مثالی نہیں تھی٬ْ موجودہ خطرات کے پیش نظر سکیورٹی زیادہ سخت اور غیر معمولی ہونی چاہیے۔صوبائی ترجمان انورالحق کاکڑ نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تربیتی مرکز کی سکیورٹی کے انتظامات پر خصوصی توجہ نہیں دی گئی تھی۔

انھوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کے پاس محرم کے دوران کسی دہشت گرد واقعے کے بارے میں اطلاعات تھیں۔’محرم کے دوران سکیورٹی ہائی الرٹ تھی تاہم عاشورہ کے بعد سکیورٹی معمول کے مطابق آ گئی٬ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گردوں نے ٹریننگ سینٹر کو نشانہ بنایا۔

(جاری ہے)

ترجمان نے بتایا کہ دہشت گردوں نے رات کے اٴْس پہر میں حملہ کیا جب زیر تربیت اہلکار اپنے کمروں میں سو رہے تھے۔

ہلاکتوں کے بارے میں بتاتے ہوئے انوار الحق کاکڑ نے کہاکہ زیر تربیت اہلکاروں کو ایک شدت پسند نے یرغمال بنایا ہوا تھا اور جیسے ہی سکیورٹی اہلکار اس کمرے میں داخل ہوئے خودکش حملہ آور نے اپنے آپ کو اڑا دیاانھوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں سکیورٹی کے انتظامات بہتر بنانے کے لیے فوری اور موثر اقدامات پر غور کیا جائے گا۔انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ دہشت گرد غیرملکی ایجنسیوں کی معاونت سے ملک میں شدت پسند سرگرمیاں کر رہے ہیں ٬ْشدت پسند افغانستان اور بھار ت کی رہنمائی میں ٹریننگ حاصل کریں گے تو انھیں لاجسٹک مدد فراہم ہو گی٬ وہ ٹیکنیکل اور سٹرٹیجک دونوں لحاظ سے ہم سے اگے ہوں گے۔

ہمیں صرف شدت پسندوں کا مقابلہ نہیں کرنا بلکہ ہمیں بھارتی خفیہ ایجنسی را اور افغان انٹیلی جنس ایجنسی این ڈی ایس کا بھی مقابلہ ہے۔ شدت پسند اٴْن کے ساتھ تیسرے فریق ہیں۔بلوچستان کے صوبائی ترجمان نے کہا کہ ہمار سب سے بڑا چیلنج انڈیا اور افغانستان جیسی وہ غیر ذمہ دار ریاستیں ہیں جو دہشت گردی کو سٹرٹیجک ہتھیار کے طور پر پاکستانی ریاست کیخلاف استعمال کر رہے ہیں۔

متعلقہ عنوان :