ْسندھ ہائیکورٹ نے مشیر قانون مرتضی وہاب کی تقرری کیخلاف دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا

یہ دیکھنا ہوگا کہ وزیر اعلی نے کسی کو نوازنے کیلئے مشیر رکھا یا انہی ضرورت ہے ۔وکیل صفائی کے مطابق وزیر اعلی کسی گوالے کو بھی مشیر رکھ سکتا ہے٬ یہ تو بہت تشویشناک بات ہے٬ چیف جسٹس کے دوران سماعت ریماکس

منگل 25 اکتوبر 2016 13:41

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 اکتوبر2016ء) سندھ ہائیکورٹ نے مشیر قانون مرتضی وہاب کی تقرری کیخلاف دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیاہے۔منگل کو سندھ ہائیکورٹ اکے چیف جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل دو ارکنی ابینچ نے مشیر قانون مرتضی وہاب کی تقرری کے خلاف دائر درخواست اکی اسماعت کی۔ عدالت میں درخواست گزار کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ مرتضی وہاب مشیر کی حیثیت سے کابینہ اجلاس سمیت اسمبلی میں نہیں بیٹھ سکتے٬ مرتضی وہاب عوام کے منتخب نمائندے نہیں ہیں اور انہیں وزیر کی حیثیت کا درجہ بھی نہیں دیا جا سکتا ہے۔

عدالت امیں امرتضی وہاب کے وکیل نے کہاکہ اوزیراعلی سندھ مشاورت کے لیے مشیر تعینات کر سکتے ہیں اور اجلاس میں امشاورت کے لیے کسی بھی مشیر کو بلاسکتے ہیں۔

(جاری ہے)

وزیر اعلی نے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے مرتضی وہاب کو مشیر مقرر کیا ہے۔ وکیل صفائی نے مزید کہاکہ کابینہ اجلاس امیں امحکمہ کے سیکٹرٹری بھی وزیراعلیٰ اکو بریف کرنے کے لیے بلائے جاتے ہیں۔

عدالت میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ مشیر کا مطلب ہے وزیر اعلی سے مشاورت کرنا۔ مشیر کو محکمہ صرف اس لئے دیاجاتاہے کہ وہ وزیر اعلی کی جانب سے دیئے گئے محکموں سے متعلق مشورہ دے سکے ۔مشیر کا مطلب الاٹ کیئے گئے محکمہ سے متعلق مشورہ دینا ہے٬ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ دیکھنا ہوگا کہ وزیر اعلی نے کسی کو نوازنے کیلئے مشیر رکھا یا انہی ضرورت ہے ۔

وکیل صفائی کے مطابق وزیر اعلی کسی گوالے کو بھی مشیر رکھ سکتا ہے٬ یہ تو بہت تشویشناک بات ہے۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے اپنے دلائل میں کہاکہ صوبے کے پاس لامحدود انتظامی اختیارات ہیں مگر سندھ میں صرف 18وزیر ہیں٬ جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ ایڈووکیٹ جنرل بھی وزیر اعلی کو قانونی مشورے دے سکتا ہے تو مشیر رکھنے کی کیا ضرورت ہے ۔ایڈووکیٹ جنرل نے کہاکہ پنجاب میں 360 ارکان اسمبلی اور 40 سے زیادہ وزیر ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مشورہ دینے اور محکمہ کے فیصلے کرنے میں فرق ہے۔عدالت کا فریقین کو دلائل تحریری طور پر جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا

متعلقہ عنوان :