کوئٹہ پولیس سینٹر میں موجود کیڈٹس کو اسپیشل سروسز گروپ کے کمانڈوز نے ریسکیو آپریشن کرکے کالج سے باہر نکالا۔ دو فوجی ہیلی کاپٹرز فضائی معاونت فراہم کرتے رہے۔ حملہ آوروں کی تعداد 10 سے 12 تھی جنھوں نے نقاب پہن رکھے تھے۔ عینی شاہدین‘وزیراعظم نواز شریف کی کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ کالج پر حملے کی مذمت‘زیر تربیت پولیس اہلکاروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہدایت ‘ دہشت گرد قوم کے حوصلے پست نہیں کرسکتے۔ وزیراعظم

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 25 اکتوبر 2016 10:09

کوئٹہ پولیس سینٹر میں موجود کیڈٹس کو اسپیشل سروسز گروپ کے کمانڈوز نے ..

کوئٹہ(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔25اکتوبر۔2016ء) کوئٹہ کے پولیس سینٹر میں موجود کیڈٹس کو اسپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) کمانڈوز نے ریسکیو آپریشن کرکے کالج سے باہر نکالا۔ریسکیو آپریشن کے دوران دو فوجی ہیلی کاپٹرز فضائی معاونت بھی فراہم کرتے رہے۔پولیس حکام کا کہنا ہے کہ 4 سے زائد حملہ آور ٹریننگ کالج کے عقبی راستے سے عمارت میں داخل ہوئے جن کے خلاف فوج، ایف سی اور پولیس کمانڈوز کی جانب سے آپریشن کیا گیا اور 250 سے زائد کیڈٹس کو بازیاب کرا لیا گیا۔

پولیس کے تربیتی مرکزکے حملے کے بعدمزید کسی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے ہسپتالوں کے باہر سیکیورٹی کے غیرمعمولی اقدامات کئے گئے ہیں بالخصوص 8 اگست کو دہشت گردوں کی جانب سے سول ہسپتال کو نشانہ بنائے جانے کے بعد اس طرح کی صورت حال سے بچنے کے لیے خصوصی اقدامات کئے گئے ہیں۔

(جاری ہے)

صوبائی حکام کا کہنا ہے کہ واقعے کے بعد کوئٹہ کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرکے عملے کو فوری طور پر طلب کرلیا گیا ہے۔

ایک عینی شاہد نے صحافیوں کو بتایا کہ 3 سے 4 دہشت گرد ٹریننگ سینٹر میں داخل ہوئے تھے اور فائرنگ شروع کردی جس کے بعد افراتفری پھیل گئی اور متعدد افراد ہاسٹل کی جانب چلے گئے۔عینی شاہدین کے مطابق کہ جس وقت حملہ آور ہاسٹل میں داخل ہوئے ان کی تعداد 10 سے 12 تھی جنھوں نے نقاب پہن رکھے تھے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ فوج اور ایف سی کی بھاری نفری موقع پر پہنچ کر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کردیا۔

دوسری جانب وزیراعظم نواز شریف نے کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ کالج پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد قوم کے حوصلے پست نہیں کرسکتے۔انھوں نے زیر تربیت پولیس اہلکاروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہدایات بھی جاری کیں۔خیال رہے کہ سریاب روڈ کا علاقہ سیکیورٹی حوالے سے انتہائی حساس علاقہ قرار دیا جاتا ہے جہاں ماضی میں متعدد مرتبہ دہشت گردوں نے سیکیورٹی اہلکاروں اور سرکاری تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے جبکہ حکام کا کہنا تھا کہ مذکورہ پولیس ٹریننگ کالج کو پہلے بھی نشانہ بنایا چکا ہے۔

ابھی تک کسی بھی تنظیم یا گروپ نے پولیس ٹریننگ کالج پر حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔تاہم ماضی میں صوبہ بلوچستان میں مختلف کالعدم تنظیمیں، سیکیورٹی فورسز اور پولیس اہلکاروں پر حملوں میں ملوث رہی ہیں جبکہ گذشتہ ایک دہائی سے صوبے میں فرقہ وارانہ قتل و غارت میں اضافہ ہوا ہے۔13 ستمبر 2016 کو کوئٹہ کے علاقے سریاب روڑ پر پولیس ٹریننگ کالج کے قریب دھماکا ہوا تھا جس میں 2 پولیس اہلکار ہلاک اور 8 افراد زخمی ہوگئے تھے۔

8 اگست کو کوئٹہ سول ہسپتال کے باہر دھماکے کے نتیجے میں 70 افراد ہلاک اور 112 سے زائد زخمی ہوئے تھے، ہلاک ہونے والوں میں ڈان نیوز کا کیمرہ مین بھی شامل تھا جبکہ اکثریت وکلا کی تھی جو بلوچستان بارکونسل کے صدر انور بلال کاسی کے قتل کی خبر سن کرہسپتال پہنچے تھے۔28 جون 2016 کو کوئٹہ میں فائرنگ کے 2 مختلف واقعات میں 4 پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔اس کے علاوہ پولیس ٹریننگ کالج ماضی میں 2008 اور 2006 میں بھی دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں آیا تھا جہاں کالج کے میدان میں راکٹ فائر کئے گئے تھے۔