انگریزوں نے چائے کی تجارت میں چین کی برتری کو ختم کرنے کے لئے ہندوستان میں چائے کی کاشت اور استعمال کو فروغ دیا

ہندوستان میں چائے کی کاشت کا اولین تجربہ آسام میں کیا گیا بیڈفورڈ کی ساتویں ملکہ این نے صبح اور رات کے کھانے کے طویل درمیانی وقفے کو چائے اور بسکٹ کے ساتھ پر کرنے کے لئے شام کی چائے کا آغاز کیا مختلف ادوار میں چائے پیش کرنے کے لئے مختلف اقسام کے برتن استعمال میں رہے

پیر 24 اکتوبر 2016 12:22

لندن ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 اکتوبر2016ء) دور جدید کے مقبول ترین مشروب چائے کو پر صغیر پاک و ہند میں رواج دینے کا سہرا یہاں برطانوی سامراج کے سر ہے جنہوں نے چائے کی تجارت میں چین کی برتری کو ختم کرنے کے لئے ہندوستان میں چائے کی کاشت اور استعمال کو فروغ دیا اور یوں دودھ دہی کی ندیوں میں بہتا یہ ملک انگریزوں کی بدولت ہری ہری پتیوں سے تیار اس مشروب کا غلام بن کر رہ گیا اور اب صبح سویرے آنکھ کھلتے ہی گرم گرم چائے کی پیالی زندگی کو ایک نئی نوید دیتی ہے۔

شہر کا بابو ہو یا گاؤں کا کسان٬ عورت ہو یا مرد چائے سے ہی نئی صبح کا آغاز کرتے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 19 ویں صدی میں انگریزوں نے ہندوستان میں چائے کی کاشت کا تجربہ کیا اور نتیجہ انتہائی زبردست نکلا۔

(جاری ہے)

ان کی نظر آسام کے بالائی علاقوں پر جا ٹھہری جہاں کی آب و ہوا چائے کے لیے بے حد سازگار تھی۔چین سے چائے کے ساتھ سنگاپور سے چینی نژاد مزدور بلوائے گئے اور زمین کو ہموار کرنے کا کام شروع کردیا گیا۔

یہ مزدور اس کام میں ناکام رہے اور بالآخر زمین کو ہندوستانی مزدوروں نے ہموار کیا اور چائے کی کاشت کا آغاز ہوا۔ انگریز حکومت نے حصول مقصد کے لیے یہ اعلان کیا کہ جو انگریز چائے کے باغ لگانے میں دلچسپی رکھتا ہے اسے زمین مفت دی جائے گی۔ جلد ہی آسام کا یہ علاقہ چائے کے باغات سے سرسبز ہو گیا۔ ان باغات میں کام کرنے والے مقامی مزدور تھے اور ان پر حکومت کرنے والے انگریز بہادر٬ جن کی زندی عیش و آرام سے بھرپور٬ بڑے بڑے آرام دہ مکان٬ نوکر چاکر٬ گالف کے ٹورنامنٹ٬ ٹینس کے مقابلے٬ رقص و سرود کی محفلیں٬ ہر کوئی متمنی تھا کہ چائے کے باغات کی ذمہ داری اسے مل جائے لیکن انگریزوں کے ہندوستان سے رخصت ہوتے ہی یہ بہار بھی رخصت ہوئی۔

مارواڑی تاجر اب ان کے نئے مالک تھے جنھیں منافع خوری کے علاوہ کسی چیز سے سروکار نہیں تھا۔عیش و عشرت کا دور ختم ہوا اور مزدور اور منیجر کام کی چکی میں پس کر رہ گئے۔ وقت کے ساتھ ہندوستان کی چائے نے چین کی چائے پر فوقیت حاصل کر لی۔ آسام کی چائے کے ساتھ دوسرے خطوں کی چائے بھی اس دوڑ میں شامل ہوتی گئی اور آج ہندوستان میں بے شمار چائے کمپنیاں ہیں جن میں بروک بونڈ٬ لپٹن اور تاج محل وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

ہندوستان میں چائے عموما دو وقت پی جاتی ہے۔ صبح نئے دن کی ابتدا کے ساتھ اور شام کو دن بھر کی تھکن دور کرنے کے لیے۔ دوپہر یا شام کی چائے کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔کہتے ہیں کہ بیڈفورڈ کی ساتویں ملکہ این دوپہر کی چائے کی ذمہ دار ہیں۔ صبح اور رات کے کھانے کے طویل درمیانی وقفے کو انھوں نے چائے معہ بسکٹ کے حل کیا۔ رفتہ رفتہ بسکٹ کے ساتھ دوسرے ہلکے پھلکے لوازمات بھی اس میں شامل ہوتے گئے۔

چائے اعلی طبقے کا فیشن بن گئی۔ اس عادت کو انگریز ہندوستان لے آئے اور یہاں بھی ہرخاص و عام اس کا عادی ہو گیا۔چائے بنانے کے بھی مختلف طریقے ہیں۔ عام ہندوستانی چائے پانی٬ دودھ٬ شکر اور چائے کی پتی کو ابال کربنتی ہے جو سڑک کے کنارے موجود دکان اور ریلوے سٹیشن پر دستیاب ہوتی ہے اور اسے عوام پیتے ہیں۔ لیکن اعلی طبقے نے انگریزوں کی تقلید میں اس کے تکلفات کو بھی اپنا لیا اور چائے کشتی میں چینک (کیتلی)٬ شکر کی پیالی دودھ کے جگ کے ساتھ پیش ہونے لگے۔

وہ چائے مکس چائے تھے اور یہ الگ الگ۔ آج بھی بعض ریستورانوں میں خدمتگار یہ سوال پوچھتے ہیں کہ آپ کیسی چائے پئیں گے مکس یا الگ الگ۔ چائے کی مقبولیت سے کئی چیزیں پروان چڑھیں۔ چائے پہلے مٹی کے پیالے میں پی جاتی تھی۔ اس پیالے کو کلڑھ کہتے تھے۔ آہستہ آہستہ پیالی اور طشتری رواج میں آئی۔ طرح طرح کے پیالے اور قلفیاں بازار میں فروخت ہونے لگیں۔

اور اب اس کا رواج بھی ختم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ اب چائے بڑے چھوٹے مگوں میں پیش ہونے لگی ہے۔ اب چائے کی چینک اور کیتلیاں شاذونادر ہی نظر آتی ہیں۔ نئی طرح کی چینک٬ مختلف قسم کی کیتلی٬ چائے کو گرم رکھنے کے لیے غلاف یا ٹی کوزی اور کشتی پر بچھا ہوا ٹرے کور سب زندگی کی مصروفیات کی نذر ہو گئیں۔ چائے زندگی کی ضرورت کے ساتھ تہذیب کا بھی حصہ ہے اور گھر آنے والے کو چائے کے لیے پوچھنا بھی اس میں شامل ہے۔

اہم گفتگو اکثر چائے کی پیالی پر کی جاتی ہے۔ چائے اب سیاسی میدان میں بھی آ پہنچی ہے۔ اب تو یوم آزادی جیسے موقعوں پر چائے کی دعوت اور ہمارے وزیر اعظم کی امریکی صدر کے ساتھ چائے پر ملاقات اس بات کو واضح کرتی ہے کہ چائے صرف ایک ہری بھری پتی کا مشروب نہیں بلکہ آپسی میل جول اور سنجیدہ گفتگو کا وسیلہ بھی ہے۔

متعلقہ عنوان :